مشکلات کا شکار ملکی معیشت اب بہتری کی جانب گامزن



مشکلات کا شکار پاکستانی معیشت اب بہتری کی جانب گامزن ہے، اور شرح نمو میں بھی بہتری دیکھی جا رہی ہے۔

پاکستان کی شرح نمو مالی سال 2024 کے لیے 3.5 فیصد تک بہتر ہو گئی ہے جو 2023 کے لیے 0.3 فیصد تھی۔

اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں اگست 2023 تک پاور جنریشن میں 14 فیصد، ڈیزل سیل میں 11 فیصد اور پیٹرول سیل میں 8 فیصد سے زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

اعدادوشمار میں پاکستانی برآمدات کے حوالے سے بھی حوصلہ افزا خبر ہے کہ ستمبر 2023 میں پاکستان کی ملکی برآمدات 1.15 فیصد سے بڑھ کر 2.40 بلین ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔

پاکستان پیٹرولیم لمیٹیڈ (پی پی ایل) کی شرح نمو میں جو اضافہ دیکھنے میں آیا وہ ریکارڈ 42 فیصد ہے۔ اس کے علاوہ کاٹن کی پیداوار 72 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں گندم کی پیداوار 28 ملین ٹن تک پہنچ چکی ہے جب کہ چاول کی پیداوار 9 ملین ٹن پہنچنے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔

ماہ ستمبر کے دوران پاکستان کا تجارتی خسارہ 48.2 فیصد تک کم ہوا ہے جبکہ 2 ماہ کے عرصے میں ڈالر کی قدر میں 50 روپے سے زیادہ کمی واقع ہوئی ہے۔

پاکستان کے عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاہدے کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں، آئی ایم ایف، بین الاقوامی ترقیاتی بینک اور ورلڈ بینک سے پاکستان کو مجموعی طور پر 1.4 ارب ڈالر ملیں گے۔

اسرائیل میں افراتفری کی صورتحال، وزیر اطلاعات اچانک مستعفی



اسرائیل اور فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے درمیان کشیدگی کے بعد اسرائیل میں افراتفری کی صورت حال پیدا ہو گئی ہے، اور اب وزیر اطلاعات گالیت ڈسٹل نے اچانک عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے ایک بیان میں اسرائیلی وزیر اطلاعات گالیت ڈسٹل نے لکھا کہ رواں ہفتے کے آغاز میں انفارمیشن سسٹم کے سربراہ نے وزارت خارجہ کے امور کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کے ریاستی معاملات کی اطلاعات کی سرگرمیوں کی ذمہ داریاں بھی منسٹری آف ڈائسپورہ کو سونپ دی تھیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ بے اختیار وزارت اطلاعات کو دیکھ کر میں سمجھتی ہوں کہ اب اس عہدے پر براجمان رہنا اسرائیلی خزانے کا نقصان کرنے کے مترادف ہے۔

گالیت ڈسٹل لکھتی ہیں کہ سب سے اہم ملک کی بہتری ہے، اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنے عہدے سے الگ ہو جائوں، اس لیے میں وزارت اطلاعات سے مستعفی ہو رہی ہوں۔

علاج کے لیے تشریف لائیں



تحریر:۔ عطاالحق قاسمی

اللہ نہ کرے آپ میں سے کسی کو کوئی بیماری لاحق ہو، خواہ پراسٹیٹ کا پرابلم ہو، نزلہ زکام، کھانسی، قبض ہو، خدانخواستہ کینسر ہو،گھٹنوں میں تکلیف ہو، ہارٹ کا مسئلہ ہو، آپ کو گھبرانے کی ضرورت نہیں، میں ان میں سے کچھ بیماریاں بھگتا چکا ہوں اور کچھ مجھے بھگت رہی ہیں، میری آئے روز کسی نہ کسی ڈاکٹر سے DATE ہوتی ہے، بس ہم ایک دوسرے کو پھول پیش کرتے ، صرف محبت بھری باتیں ہوتی ہیں اور ان کا تعلق کسی نہ کسی بیماری سے ہوتا ہے، اصل میں ڈاکٹر صاحب کو میری بیماری سے پیار ہوتا ہے کہ انکے گھر کا چولہا اسی سے چلتا ہے اور مجھے ڈاکٹر کی ان ادویات کے حوالے سے جو میری جیون ساتھی بن چکی ہیں، اور ہاں ایک شے تو میں بھول ہی گیا تھا اور وہ یہ کہ میں پاگل ہوں، ہر وقت بس اسی سوچ میں گم رہتا ہوں کہ ہمارے عوام اور ہمارے حکمران کب ٹھیک ہونگے، عوام میں خود ہوں، اور میرا ٹھیک ہونے کا کوئی ارادہ نہیں، حکمران کہتے ہیں ہم ٹھیک ہو جائینگے،یہ مسئلہ کئی دہائیوں سے چل رہا ہے چنانچہ دونوں ہر وقت مشکل میں رہتے ہیں۔

چلیں باقی باتیں بعد میں ہوں گی پہلے میں آپ کو اپنے پاگل پن کی ابتدائی کہانی سنا لوں، یہ ان دنوں کی بات ہے جب میرے پاس لمبریٹا اسکوٹر ہوتا تھا۔ میں ایک دوست کے پاس بیٹھا تھا کہ اچانک میں گم سم ہوگیا۔ میں بول سکتا تھا، سن سکتا تھا مگر لگتا تھا یہ سب کچھ خواب میں ہو رہا ہے، مگر عجیب بات ہے کہ میں نے اس وقت اپنا اسکوٹر اسٹارٹ کیا اور اسی ٹرانس کی حالت میں اللہ جانے کیسے میوہسپتال سیدھا سائیکائٹرسٹ کے کمرے میں پہنچ گیا۔ اس نے میری باتیں سنیں اور پھر پوچھا آپ نماز پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، چونکہ اس وقت میری دماغی حالت ٹھیک نہیں تھی چنانچہ میں سمجھا کہ میں فوت ہوگیا ہوںاور منکر نکیر میرے ایمان کے بارے میں تفتیش کرنے آگئے ہیں۔ سو میں نے ان کے سوالوں کے جواب دیئے اور ڈاکٹر صاحب نے بہت ساری ادویات کی فہرست میرے ہاتھ میں تھما دی۔ میں نے فوراً ان کا استعمال شروع کردیا اور اس کے نتیجے میں بلاوجہ او ر بلاموقع خوش رہنے لگا۔ انہی دنوں میرے ایک دوست کے والد کا انتقال ہوا، میں تعزیت کیلئے گیا اور اسے گلے لگاتے ہوئے کہا یار بہت افسوس ہوا مجھے سارے گندے لطیفے مرحوم سنایا کرتے تھے، پھر میں نے مرحوم کی یاد تازہ کرنے کیلئے ایک لطیفہ اس دوست کو سنانے کی کوشش کی مگر اس کی آنکھوں میں غیظ و غضب کی چنگاریاں دیکھ کر حوصلہ نہیں پڑا۔ خیر ان ادویات کے اتنے گھٹیا قسم کے آفٹر افیکٹس دیکھ کر میںنے یہ کورس پورا نہیں کیا اور درمیان میں چھوڑ دیا۔ ایک دن ہو بہو میری وہی حالت ہوئی اور میں ایک بار پھر اسی ٹرانس میں چلا گیا۔ میں جس دوست کے پاس بیٹھا تھا اس کے ملازم نے کھانے پینے کی چیزیں میز پر سجا دیں، مجھے پیاس محسوس ہو رہی تھی چنانچہ میں نے ایک مشروب اپنے اندر انڈیل لیا اور دوبارہ ڈاکٹر کے پاس جانےکیلئے اٹھ کھڑا ہوا، مگر میں نے محسوس کیا کہ شربت پینے کے بعد میں بالکل نارمل ہوگیا ہوں، میں اس ٹھنڈے میٹھے شربت کے اس جادو سے بہت حیران ہوا مگر بعد میں پتہ چلا کہ نہ اس روز اور نہ آج مجھے کوئی دماغی مسئلہ تھابلکہ میری شوگر لو ہوئی تھی جو ایک میٹھے شربت نے پوری کردی۔

یہ حکایت خاصی طویل ہوگئی مگر چلتے چلتے یہ بھی بتاتا چلوں کہ دماغ کی ایک اور نوع کی خرابی اب بھی موجود ہے اور وہ یہ کہ ہر وقت اس سوچ میں ہوتا ہوں کہ ملک و قوم کا کیا بنے گا، گھروں میں غربت کی سب سے نیچے لکیر میں زندگی بسر کرنے والے ہمارے لئے انواع و اقسام کے کھانے بناتے ہیں اور انکے گھروں میں محرومیوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، وہ ہمارے بچوں کو اسکول چھوڑنے جاتے ہیں اور ان کے اپنے بچے تعلیم سے محروم ہیں وہ ہمارے وسیع و عریض اور سجے سجائے گھر دیکھتے ہیں جہاں سے واپس انہیں اپنے ایک کمرے کے گھر میں جانا ہوتا ہے، بس اس قسم کی سوچیں مجھے پاگل بنائے رکھتی ہیں، اس کا علاج میرے ایک دوست نے بتایا ،اس نے پوچھا تم نے اقبال کا وہ مصرعہ سنا ہوا ہے ’’درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو‘‘ میں نے کہا ہاں سنا ہوا ہے۔ کہنے لگا بس آج کے بعد تم یہی سمجھو کہ تم نے یہ مصرعہ کبھی سنا ہی نہیں، ہمیشہ سکھی رہو گے۔ میں نے اس کے بعد اپنے اس دوست کو بھی ڈاکٹر کہنا شروع کردیا ہے کیونکہ مجھے اس کی ’’دوا‘‘ سے بھی آرام نہیں آیا اور باقی رہے وہ امراض جن کا میں نے کالم کے آغاز میں بیان کیا ہے اور جن کے بارے میں ایک شاعر نے کہا ہے ؎

ایک دکھ ہو تو کوئی اس کا مداوا بھی کرے

دردِ دل، دردِ جگر، دردِ کمر تینوں ہیں

تو میں نے جو بیماریاں بیان کی تھیں ان میں سے دل میں درد کا ایک مجرب نسخہ ایک شاعر نے عطا کر رکھا ہے اور وہ کچھ یوں ہے ؎

ہاتھ رکھ کر میرے سینے پہ وہ فرمانے لگے

درد کیوں ہوتا ہے، کب ہوتا ہے، اب ہوتا ہے

اور جہاں تک باقی امراض کا تعلق ہے، آپ میرے پاس تشریف لائیں، اپنا مرض بتائیں اور مجھ سے نسخہ لکھوا کرلے جائیں، کیونکہ میں مختلف النوع بیماریوں کوبھگت چکا ہوں ، ان کیلئےڈاکٹروں نے مجھے جو ادویات تجویز کی تھیں وہ میرے پاس لکھی ہوئی ہیں، میں آپ کوبھی وہی لکھ دوں گا کہ ڈاکٹر کے پاس جائیں گےتو وہ بھی یہی لکھ کر دیگا۔ میں آپ سے کوئی فیس بھی طلب نہیں کروں گا، اپنی خوشی سے جو دیں گے قبول کرلوں گا۔

’’اکبر نام لیتا ہے، خدا کا‘‘



تحریر:۔ حفیظ اللہ نیازی

21 اکتوبر کو میاں محمد نواز شریف وطن قدم رنجا فرمانے کو ، انگلستان چھوڑ چُکے ، سفر کا آغاز ہوچُکا ۔ کم و بیش ایک ماہ قبل ارادہِ سفر باندھا تو جوشِ خطابت یا وفورِ جذبات میں’’چند قومی مجرموں ‘‘ کا نام لیکر مطالبہ کر ڈالاکہ’’اُنکے خلاف مقدمات چلانے ہونگے‘‘۔

بس نام لینے کی دیر ، مملکت کے طاقتور حلقوں میں بھونچال آگیا۔ ن لیگی رہنماؤں میں کھلبلی مچ گئی۔ تب سے آج تک رہنماؤں کی طرف سے دو درجن وضاحتی بیان آ چُکے ہیں ۔تازہ بہ تازہ بیان ، سیاسی فہم و فراست سے عاری ہمارے دوست اسحاق ڈار کا اعلان ، ’’معیشت کی بحالی نواز شریف کا بہترین انتقام ہوگا ‘‘۔ نہیں معلوم کہ’’اگر‘‘الیکشن ہو بھی گیا ’’اگر‘‘ نواز شریف اقتدار میں آ بھی گئے اور’’اگر‘‘معیشت بحال بھی ہو گئی تو بدلہ کس کی مد میں چُکتا ہوگا۔ معیشت کی بحالی پر جنرل باجوہ یا جنرل فیض یا ثاقب نثاریا آصف کھوسہ یا عمران خان، کیا سب سے حساب بیباک ہو پائے گا؟

موجودہ حالات اورمعروضی حقائق میں معیشت کی بحالی کا عزم، معاشی بحران بارے ڈار صاحب کی کم علمی یاغیر سنجیدگی پر حیرت زدہ ہوں ۔ سیاسی عدم استحکام ہی تو موجودہ معاشی بحران کی وجہ بنا ہے ۔ 2014ء سے’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ ، جیسے ڈھکوسلے نعرہ پراستوارغیر آئینی اور غیر قانونی ہتھکنڈوں نے مملکت کو ایک عرصہ سے متزلزل کر رکھا ۔ یکے بعد دیگر ذمہ داری سنبھالنے والوں نے بھی کسی بُخل کا مظاہرہ نہ کیا اسکو کمال فن بنایا ۔ آج مملکت سیاسی عدمِ استحکام کی دلدل میں گردن تک دھنس چُکی۔

خاطر جمع رکھیں ، جب تک اپریل 2014ءسے اپریل 2022ءتک مملکت کو اس حال تک پہنچانے والوں کاتعین نہیں ہو گا ۔ جب تک ’’ طاقتور ‘‘آئین اور قانون کے زیرِ دست نہیں ہونگے، دھجیاں اُڑانے والوں کو سزائیں نہیں ملیں گی، مملکت کا سیاسی مستقبل مخدوش ہی رہنا ہے ۔ میرا عقیدہ ہے کہ خواجہ ناظم الدین کی معزولی پر یا1956 ءکے آئین کی منسوخی کا سدِ باب ہو جاتا تو 1971 ءکا سانحہ اور ہتک آمیز شکست نصیب نہ بنتی۔ مملکت کی بد قسمتی کہ طاقت کے زور پر سیاست ہتھیانے کا کھیل ، وطنی شکست و ریخت کئی مراحل کے بعد زخم خوردہ سیاسی استحکام کا سفر جب جنرل راحیل اور جنرل باجوہ تک پہنچا تودونوں نے اُسکو مزید چار چاند لگائے ۔

جنرل راحیل اور جنرل باجوہ نے اپنے عہدوں کو دوام بخشنے کی خاطر جو’’ شر‘‘تخلیق کیا، آج عفریت بن کر سامنے ہے ۔ دونوں کا مقصدایک ہی کہ تاحیات آرمی چیف رہنا ہے ۔ جنرل باجوہ کا اضافی بوجھ کہ اپنے ادارے پر بھی رحم نہ آیا۔ اپنے عزائم کو ادارے کیخلاف استعمال کر ڈالا ۔ پہلا موقع کہ ادارے کی وجہ شہرت ’’اتحاد اور تنظیم ‘‘بذریعہ اپنے سربراہ تختہِ مشق بنی رہی۔ امریکہ کے مضبوط صدر ہیری ٹرومین ( 1945-53)نے اپنے دفتر میں دیوا رپر کندہ کرایا ( THE BUCK STOPS HERE ) یعنی کہ’’ سب کچھ میں ہی میں ہوں‘‘۔آج امریکہ کے سیاسی استحکام کا راز اِسی میں پنہاں ہے ۔ ہمارے ہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے ۔ ماضی کریدیں تو 70 سال سے مملکت میں سانپ سیڑھی کا کھیل جاری ہے۔ پہلا المیہ! طاقت کا سر چشمہ کبھی منتخب حکومت (ما سوا ئےلیاقت علی خان ) نہ بن پائی ۔ بگاڑ کی ساری ذمہ داری ہمیشہ سیاسی حکومت پر جبکہ اختیارات و احکامات ہمیشہ طاقت کے زیرِ اثر رہے ۔ دوسرا المیہ! ہر 8/10سال بعد مملکت زیرو پوائنٹ سے اپنے سیاسی استحکام کی بازیابی کے نئے سفر کا آغاز کرتی ہے۔ اس لحاظ سے 70سال کے مختصر سفر میں ہم انواع واقسام کے نظام آزما چُکے۔ تیسرا المیہ ! خواجہ ناظم الدین کی معزولی سے لیکر نگران وزیراعظم کاکڑ تک ، لمبی فہرست میں ایک وزیراعظم بھی نہیں جسکو اقتدار میں لانےکیلئے اسٹیبلشمنٹ موثر نہ رہی ہو یا کسی کو ضرورت پڑنے پر گھر بھیجنے میں کبھی کنجوسی نہ دکھائی ہو؟ ایسی اُکھاڑ پچھاڑ میں مملکت کا باجا بجتا رہا ۔ پردہِ سیمیں کے پیچھے کاریگر فراخدلی سے اپنے آپکو مسیحا، مُصلح اور مجدد گردانتے رہے ۔ 6سال میں جنرل باجوہ اور عمران خان دلجمعی سے نئی تعیناتی سے پہلے حالات کو جہاں دھکیل گئے ہیں، اُسکا منطقی انجام آج کی صورتحال ہی تھی ۔ دونوں موجودہ آرمی چیف کیلئے کانٹے بو گئے۔

دو دن پہلے اسلام آباد میں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ صاحب کیساتھ ایک طویل نشست ہوئی ۔ ملک کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے نامی گرامی افراد شریک ہوئے ۔ یوں تو میٹنگ آف دی ریکارڈ رکھنے کی فرمائش تھی ، بہت کچھ سامنے آ چُکا ہے ۔ وزیراعظم کے جوابات تو میری امانت ، البتہ میرا سوال میری ملکیت، یہاں درج کیے دیتا ہوں ۔’’ وزیراعظم صاحب! میں اس معاملہ میں یکسو ہوں کہ آئین کےمطابق 90 روز میں الیکشن کروانا آپ کیلئے کوئی مشکل نہ تھا۔ مرضی کے مطلوبہ نتائج بھی حاصل ہونا تھے ۔ شہباز حکومت نے وسیع تر قومی مفاد اور ناگزیر وجوہات پرجو اقدامات کیے انتخابات کو فروری تک ملتوی کرنے کی گنجائش دے گئے ۔ اگر موافق حالات کے باوجود ا لیکشن نہیں ہوسکے تو یہ بات طے کہ فروری میں بھی الیکشن کے انعقاد میں آپکی حوصلہ شکنی رہنی ہے ۔ میرا ڈر ہے کہ آئین سے جو انحراف’’ نظریہِ ضرورت‘‘ کے تحت ہوچُکا ۔ ایسے نظریہ کی ضرورت من و عن فروری میں بھی موجودرہنی ہے ۔ خدشہ ہے ، انتخابات کے مزید التوا پریقیناً آئین ساقط ہونے کو ہے ‘‘ ۔

آج کی تاریخ تک تو حکومت سے حکمران’’ کمبل‘‘بن کر بغل گیر رہے ہیں ۔ ملکی تاریخ میں پہلا موقع کہ حکومت’’کمبل‘‘بن کر حکمرانوں کو اپنی لپیٹ میں لے چُکی ہے ۔ بظاہر موجودہ حکومت کا اس کمبل سے جان چھڑانا ناممکن نظر آتا ہے ۔ نواز شریف آ بھی گئے تو بلا شبہ بہت پُر تپاک استقبال متوقع ہے ۔ اگرچہ مینار پاکستان پر بہت بڑا شو ہوگا۔ بیانیہ مع الیکشن کی غیر موجودگی میں چند ماہ اندر تاثر زائل ہو جائے گا ۔ یوں اسحاق ڈار ایسی صورتحال میں انتقام کی زحمت سے بھی محفوظ رہینگے اور معیشت کی بحالی بھی وعدہ فردا رہنی ہے ۔ معمہ لاینحل کہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کو سیاسی عدمِ استحکام کی دلدل میں دھکیلنے پر معاف کیونکر کیا جائے؟

یقیناً ماضی میں ایسا کام شجر ممنوعہ رہا ۔ مگر ادارے کیخلاف گھناؤنی سازش پر تو اُنکو گرفت میں نہ لانا ادارے کے اپنے لیے مضر ہے۔ نواز شریف نے قومی مجرموں کا نام لے ہی لیا تو ایسا شور شرابا کیوں؟ کہ بے چارے نواز شریف کو شرمندگی اُٹھانا پڑی ۔ نواز شریف ! تمہاری مجال کہ’’ اکبر نام لیتا ہے، خدا کا اس زمانے میں‘‘۔ بالآخر غائب ہونے کے بعدآج بروز جمعرات 12بجے دوپہر میری حسان نیازی سے ملاقات ہو گئی ہے۔ بہت کچھ کہنے کو،فی الحال زبان گنگ، ملاقات پر اللہ کا سجدہ شکر بجا لاتا ہوں۔

بشکریہ جیو نیوز اردو

پاک بھارت ٹاکرا: ذکا اشرف قومی ٹیم کا حوصلہ بڑھانے بھارت پہنچ گئے



پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی مینجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین ذکا اشرف کرکٹ ورلڈ کپ کا اہم میچ پاک بھارت ٹاکرا دیکھنے کے لیے انڈیا پہنچ گئے ہیں۔

ذکا اشرف قومی ٹیم کا حوصلہ بڑھانے کے لیے بھارت پہنچے ہیں، ذکا اشرف 14 اکتوبر کو بھارتی شہر احمد آباد کے نریندرا مودی اسٹیدیم میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والا اہم میچ دیکھیں گے۔

اس کے علاوہ ذکا اشرف اپنے دورے کے دوران سیکریٹری بی سی سی آئی جے شاہ اور دیگر حکام سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔

چیئرمین پی سی بی مینجمنٹ کمیٹی ذکا اشرف نے بھارت روانگی سے قبل اپنی گفتگو میں کہا کہ پاکستانی ٹیم کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے بھارت جا رہا ہوں، انہوں نے قومی ٹیم کو پیغام دیا کہ بھارت کے خلاف بے خوف ہو کر کھیلیں۔

ذکا اشرف نے کہا کہ شائقین کرکٹ اور صحافیوں کو ویزے نہ ملنے پر میں نے بھارت جانے کا ارادہ ترک کر دیا تھا مگر اب معلوم ہوا ہے کہ پاکستانی صحافیوں کو ویزے حاصل کرنے کے لیے پاسپورٹ جمع کرانے کا کہا گیا ہے۔

نوازشریف 21 اکتوبر کو دن 12 بجے لاہور ایئرپورٹ پر لینڈ کریں گے



پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی وطن واپسی کی تیاریاں جاری ہیں، نواز شریف 21 اکتوبر کو دوپہر 12 بجے لاہور ایئرپورٹ پر لینڈ کریں گے۔

نوازشریف اس وقت سعودی عرب میں ہیں جہاں سے وہ یو اے ای روانہ ہوں گے اور وہیں سے وطن واپسی کے لیے ان کا طیارہ اڑان بھرے گا۔

نواز شریف جس خصوصی طیارے کے ذریعے وطن واپس تشریف لا رہے ہیں اس میں 152 افراد سوار ہوں گے۔

نواز شریف کے ہمراہ خصوصی طیارے میں مسلم لیگ ن کے کارکنان کے علاوہ صحافی بھی موجود ہوں گے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق نواز شریف لاہورایئرپورٹ پر لینڈ کرنے کے بعد جلسے میں لوگوں سے خطاب کریں گے۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے نواز شریف کی وطن واپسی پر جلسے کے لیے گریٹراقبال پارک کے مقام کا انتخاب کیا گیا ہے اور جلسے کی تیاریاں جاری ہیں۔

بجلی چوروں کے خلاف کارروائیاں جاری، 13 ہزار 621 افراد گرفتار



ملک بھر میں بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈائون کا سلسلہ جاری ہے، اب تک جن لوگوں کے خلاف مقدمات درج ہوئے ہیں ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جا رہی ہے جبکہ واجبات کی وصولی کے لیے بھی ٹیمیں اپنا کام کر رہی ہیں۔

اعدادوشمار کے مطابق یکم ستمبر سے 8 اکتوبر تک بجلی چوروں کے خلاف مجموعی طور پر 27 ہزار 381 مقدمات درج کیے گئے اور اس دوران 13 ہزار 621 افراد کو گرفتار کیا گیا۔

یکم ستمبر سے 8 اکتوبر تک بجلی چوروں سے 17.67 ارب روپے وصول کیے گئے ہیں۔

اب تک ہونے والی کارروائیوں میں لاہورالیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو) سرفہرست ہے، لیسکو میں اب تک بجلی چوری کے خلاف 12 ہزار 778 مقدمات درج ہوئے ہیں جبکہ 4587 افراد کو گرفتار کر کے 4.61 ارب روپے کی وصولی کی گئی ہے۔

اس کے علاوہ گیپکو میں 1473 بجلی چوروں کے خلاف مقدمات درج کر کے 779 افراد کی گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں اور ان سے 51 کروڑ روپے کی وصولی ہوئی ہے۔

فیسکو ریجن میں کارروائیوں کے دوران 2358 مقدمات درج کیے گئے ہیں اور اس دوران گرفتاریاں 1932 ہوئی ہیں جبکہ وصولی کی رقم 70 کروڑ ہے۔

آئیسکو نے 349 مقدمات درج کر کے 263 بجلی چوروں کو گرفتار کیا ہے اور ریکور ہونے والی رقم 38 کروڑ ہے، جبکہ میپکو نے بھی 5 ہزار 856 مقدمات درج کرتے ہوئے 4 ہزار 688 گرفتاریاں کی ہیں اور 1.90 ارب روپے کی رقم وصول کر لی ہے۔

اسی طرح پیسکو میں 3 ہزار 8 مقدمات درج ہوئے ہیں اور گرفتار ہونے والوں کی تعداد 1017 ہے۔ اس دوران بجلی چوروں سے 3.17 ارب روپے ریکور کیے گئے ہیں۔ جبکہ ٹیسکو قبائلی علاقہ جات میں 57 مقدمات درج کر کے 16 گرفتاریاں کی گئی ہیں جبکہ وصول ہونے والی رقم 6 کروڑ روپے ہے۔

زمینی حملہ کیا تو فوج کو نیست و نابود کر دینگے: حماس نے اسرائیل کو خبردار کر دیا



فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ اگر فلسطین پر زمینی حملہ کیا گیا تو اسرائیلی فوج کو نیست و نابود کر دیا جائے گا۔

حماس کے فوجی ترجمان ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ القدس کے تحفظ کے لیے مزاحمتی کارروائیاں جاری رکھی جائیں گی، ہمیں توقع سے زیادہ کامیابی ملی ہے اور اسرائیلی فوج کا غزہ ڈویژن تباہ کر دیا گیا ہے۔

فوجی ترجمان نے کہا کہ آپریشن ’الاقصیٰ فلڈ‘ کے لیے خفیہ تیاری کی گئی تھی، اور اس کے لیے مزاحمتی قوتوں کے ساتھ رابطے پہلے سے تھے۔

دوسری جانب مزاحمتی تنظیم اسلامی جہاد کی القدس بریگیڈ کے ترجمان ابوحمزہ نے کہا ہے کہ 1948 میں فلسطین کے پاس جو علاقے موجود تھے وہ واپس لینے کے لیے ہم جلد کئی محاذ کھولیں گے۔

انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکا، فرانس اور دیگر ملکوں کے شہری اسرائیل کی جانب سے لڑنے والوں میں شامل ہیں اور صرف اسرائیلی فوج کی وردیاں پہنی ہوئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کو جنگ کے دوران یرغمال بنایا گیا ہے ان میں بہت سے امریکی اور فرانسیسی شہری ہیں۔

پاکستان سی پیک سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھا سکا، برآمدات میں اضافہ نہ ہونا ہماری ناکامی ہے: وزیر نجکاری



نگران وفاقی وزیر نجکاری فواد حسن فواد نے کہا ہے کہ پاکستان سی پیک سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھا سکا۔

اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فواد حسن فواد نے کہا کہ برآمدات میں اضافہ نہ ہونا ہماری سب سے بڑی ناکامی ہے، برآمدات جہاں بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے ضروری ہیں وہیں غیرملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے میں بھی مدد حاصل ہوتی ہے۔

وزیر نجکاری نے کہا کہ 2018 کے بعد تو سی پیک منصوبے پر کوئی کام ہی نہیں ہوا مگر 2013 سے 2018 کے دوران بھی ہم کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکے۔

انہوں نے کہاکہ ہمیں 2013 میں یہ معلوم تھا کہ چند برسوں میں ہمیں رواں جاری کھاتوں میں نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا اور پھر 2018 میں ایسا ہی ہوا جس کی وجہ سے ملک کو ایک بار پھر آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک کے تحت جو منصوبے زیر تکمیل نظر آ رہے ہیں یہ سب 2013 سے اسی طرح ہیں۔ چین نے مختلف ممالک کے ساتھ 3 ہزار سے زیادہ منصوبوں کے معاہدے کیے ہیں جن پر 800 ارب ڈالر سے زیادہ کی لاگت آئے گی جبکہ پاکستان میں ہونے والی سرمایہ کاری صرف 25 ارب ڈالر ہے۔

وفاقی وزیر نے کہاکہ پاکستانی معیشت کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے ہم خود اس کے ذمہ دار ہیں۔

نوازشریف وزیراعظم بن بھی گئے تو 13 سے17 ماہ ہی چلیں گے، فیصل واوڈا



کراچی(این این آئی)سابق وفاقی وزیرفیصل واوڈا نے کہاہے کہ ملک کی تباہی کی ذمہ داریہی جماعتیں ہیں جوآج درستگی کی بات کرتی ہیں۔

نوازشریف وزیراعظم بن بھی گئے تو 13 سے17 ماہ ہی چلیں گے، نوازشریف کو باہر بھیجنے میں پی ٹی آئی حکومت ملوث تھی۔

خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک کی تباہی کی ذمہ داریہ ہی جماعتیں ہیں جوآج درستگی کی بات کرتی ہیں، 9 مئی کے واقعات پر کہا جاتا ہے پی ٹی آئی نے ا نتہائی غلط کام کیا۔

ن لیگ نے بھی آرمی چیف کے جہازکوہائی جیک کرنے کی کوشش کی تھی۔پی ٹی آئی کو بند کر دیا گیا اور ن لیگ کومیڈل پہنائے جارہے ہیں، ملک میں نظام ہی تباہ ہے تودرستگی کیسے ہوسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پہلے ہی تاثر دیا جا رہا ہے کہ نوازشریف جیل نہیں جائیں گے، پی ڈی ایم حکومت نے16ماہ میں اپنے کیسزمعاف کرانے کے علاوہ کیاکیاہے؟

ن لیگ بیانیہ تنقید تک لائے گی اوراس کے علاوہ کچھ نہیں کرے گی۔انہوں نے اعتراف کیا کہ نوازشریف کو باہر بھیجنے میں پی ٹی آئی حکومت ملوث تھی۔

فیصل واوڈا نے دعویٰ کیا کہ آئندہ 35 دن میں جمہوری نظام کیساتھ سب چیزوں کو باندھ دیا جائے گا۔

اس کے بارے میں مزید وضاحت 36 ویں دن کروں گا، نظام کواب صفائی کی ضرورت ہے، جمہوریت بھی رہے گی اورصفائی کی بھی ضرورت ہے۔انہوں نے کہاکہ قوم نے سسٹم کااپنے بچوں کیساتھ سلوک ایساہی دیکھناہے تواب کھڑاہونا ہوگا۔

سی پیک میں بڑا بریک تھرو



اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک ) پاکستان اور چین کے مابین بیلٹ اینڈ روڈ فورم کے موقع پر ریلویز کے ایم ایل ون منصوبے سمیت 15سے زائد منصوبوں کے ایم او یو پر دستخط ہونگے،17، 18اکتوبرکوچین میں بی آرآئی فورم کے موقع پردونوں ملکوں کے درمیان ایم اویوزپردستخط ہونگے۔

موقر قومی اخبار کی خبر کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے 17اور 18اکتوبرکو چین کے دارالحکومت میں تیسرے بیلٹ اینڈ روڈ اینشٹو فورم کا انعقاد ہوگا جس میں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ خصوصی دعوت پر شرکت کر ینگے۔

فورم کے موقع پر پاکستان اور چین سی پیک کےد وسرے مرحلے میں بڑا بریک تھرو کرینگے11انفراسٹرکچر ، توانائی اور دیگر منصوبوں کے معاہدوں پر دستخط کیے جائینگے۔

مختلف وزارتوں اور چینی سفارتخانے نے ان منصوبوں کے ورکنگ پیپر پر کام مکمل کر لیا ہے، علاوہ ازیں چین کے صدر شی چن پنگ اور وزیراعظم انوارالحق کاکڑ ملاقات کرینگے اور سی پیک کے مختلف شعبوں میں تعاون کو مزید فروغ دینے سے متعلق بھی اعلان کئے جائینگے۔

سی پیک بیلٹ اینڈ روڈ اقدام کا سب سے اولین اور اہم منصوبہ ہے جو چین اور پاکستان کے مابین 10سال قبل شروع ہوا منصوبے میں چین اب تک 30ارب ڈالر سے زائد سرمایہ کاری کر چکا ہے۔

سی پیک کے دوسرے مرحلے میں ایم ایل ون اور تھاکو ٹ، صنعت ، توانائی کے منصوبوں سمیت دیگر منصوبوں کو زیر غور لایاجائیگا اور معاہدوں پر دستخط ہونگے ۔

ایم ایل ون منصوبے کے تحت پاکستان کی 1733کلومیٹر ریلویز لائن کو کراچی سے پشاور تک اپ گریڈ کیا جائیگااور ٹرین کی رفتار کو 160کلومیٹر فی گھنٹہ لانے کیلئے نیا ٹریک بھی بچھایا جائیگا ۔

ریلویز کے متعدد پلوں کی تعمیر نو ہوگی حویلیاں کے قریب ڈرائی پورٹ تعمیر کیا جائیگا ۔

ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز کے ملازمین کا 100 فیصد الاؤنس بحال



اسلام آباد( مانیٹرنگ ڈیسک) نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے یکم نومبر سے ہیڈ کوارٹرز میں کام کرنے والے 17ویں گریڈ اور اس سے اوپر کے تمام ایف بی آر کے ارکان کے 100 فیصد ایگزیکٹو الاؤنس کو بحال کر دیا ہے ۔

موقر قومی اخبار کی خبر  کے مطابق اعلیٰ ایگزیکٹو آفس سے اس سمری کی منظوری سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت یہ نقطہ نظر رکھتی ہے کہ فیلڈ فارمیشن افسران جو کہ ایف بی آر میں کام کرتے ہین وہ ’ اپنا خیال ‘ خود رکھ سکتے ہیں اورانہیں اس وقت مزید کسی الاؤنس کی ضرورت نہیں ہے۔

اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک ریٹائرافسر نے کہا ہے کہ پہلے مرحلے میں ایف بی آرہیڈکوآرٹر کے افسران کو الاؤنس دیاجائےگا اور اب فیلڈ فارمیشن کے افسران کےلیے دوسرے مرحلے میں مستقبل میں یہ کسی بھی وقت کر دیاجائےگا۔

ایک دوسرے عہدییدار کا کہنا ہے کہ یہ امتیازی چیز ہے اور فلیڈ افسران کوایگزیکٹو الاؤنس سے محروم رکھا گیا ہے۔ فیلڈ افسران ہی سب سے زیادہ مشکل کام کرتے ہیں تاکہ آمدن کا ہدف حاصل کیاجاسکے۔

اس اعلامیے سے ان میں مایوسی پیدا ہوگی ۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ یہ الاؤنس 2016 سے منجمد تھا لیکن اب جب اسے بحال کیا گیا ہے تو صرف ہیڈکوآرٹر میں کام کرنے والے افسران کےلیے بحال کیا گیا ہے۔

سرکاری ڈیٹا کے مطابق ہیڈکوآرترز مین تعینات گریڈ ایک سے 22 تک کے تمام سرکاری نوکروں کی پوسٹوں کی تعداد 1066 ہے جبکہ ان پر اس وقت 1053 افراد کام کر رہے ہیں۔