All posts by ghulam mustafa

نوازشریف کے خصوصی طیارے کو پاکستان میں لینڈنگ کیلئے این او سی جاری



پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد و سابق وزیراعظم نوازشریف کل 21 اکتوبر کو وطن واپس پہنچ رہے ہیں، سول ایوی ایشن اتھارٹی نے نواز شریف کے طیارے کو پاکستان آنے کے لیے این او سی جاری کر دیا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق قائد ن لیگ نواز شریف خلیجی ایئرلائن کی پرواز بوئنگ سیون تھری ایٹ کے ذریعے پاکستان میں لینڈ کریں گے۔

نوازشریف کے خصوصی طیارے نے سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) سے اجازت طلب کی تھی کہ 21 اکتوبر کو دن ساڑھے 12 بجے پاکستان میں لینڈنگ کی اجازت دی جائے جس پر خلیجی ایئرلائن کی خصوصی پرواز نمبر 4525 کو اسلام آباد ایئرپورٹ پر لینڈنگ کی اجازت مل گئی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق نواز شریف پہلے اسلام آباد میں لینڈ کریں گے، اس کے بعد خصوسی طیارہ دن اڑھائی بجے اسلام آباد سے لاہور کی جانب روانہ ہو گا۔ اور 3 بجکر 20 منٹ پر لاہور پہنچ جائے گا۔

یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ عدالت کی جانب سے نواز شریف کو گرفتار نہ کرنے کے حکمنامے کے بعد نوازشریف کی واپسی کا شیڈول تبدیل ہو سکتا ہے اور ایسی صورت میں وہ براہِ راست لاہور میں لینڈ کر سکتے ہیں۔

90 روز میں عام انتخابات: سپریم کورٹ میں کیس سماعت کیلئے مقرر



سپریم کورٹ آف پاکستان نے 90 روز میں عام انتخابات کے انعقاد کے لیے کیس سماعت کے لیے مقرر کر دیا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ 23 اکتوبر کو کیس کی سماعت کرے گا۔ بینچ میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس امین الدین خان شامل ہوں گے۔

واضح رہے کہ ملک میں 3 ماہ کے اندر عام انتخابات کرانے کے لیے سپریم کورٹ بار اور پاکستان تحریک انصاف سمیت دیگر نے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔

فلسطینیوں کی مدد: امدادی سامان کے قافلے آج غزہ میں داخل ہوں گے



اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ پر بمباری کا سلسلہ بدستور جاری ہے، اسرائیلی فضائی حملوں سے متاثرہ فلسطینیوں کے لیے امدادی سامان کے قافلے آج غزہ میں داخل ہوں گے۔

مصر کے بارڈر پر اس وقت 100 ٹرک امدادی اشیا لے کر قطار میں لگے ہیں اور سرحد کھلنے کا انتظار کر رہے ہیں۔

پاکستان کی جانب ے بھیجا گیا سامان بھی مصر میں پہنچ چکا ہے اور راستہ کھلتے ہی غزہ کے متاثرین تک پہنچایا جائے گا۔

ابتدا میں امدادی سامان کے 20 ٹرک غزہ روانہ کیے جائیں گے، اب تک وینزویلا نے 30 ٹن امداد مصر پہنچا دی ہے، اس کے علاوہ روس کی جانب سے 27 ٹن امداد روانہ کی گئی ہے۔

پاک فوج اور این ڈی ایم اے کی جانب سے غزہ کے لیے بھیجے گئے امدادی سامان کی پہلی کھیپ میں ایک ہزار خیمے، 4 ہزار کمبل اور 3 ٹن ادویات شامل ہیں۔

عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ 20 امدادی ٹرک غزہ بھیجنا سمندر میں قطرے کی مانند ہے، اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر امدادی سامان سے بھرے ٹرک غزہ روانہ کیے جائیں۔

اقوام متحدہ نے غزہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا مطالبہ کر دیا



سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیوگوتریس نے مطالبہ کیا ہے کہ غزہ میں انسانی بنیادوں پر فوری جنگ بندی کی جائے۔

انتونیوگوتریس نے غزہ میں بلارکاوٹ امداد کی فراہمی کا اختیار دینے کا مطالبہ بھی کر دیا ہے۔

اس کے علاوہ فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسرائیلی یرغمالیوں کو فی الفور رہا کیا جائے۔

اس سے قبل اقوام متحدہ نے کہا تھا کہ اسرائیلی جارحیت کا شکار فلسطینیوں کے لیے فوری انسانی امداد ناگزیر ہے کیوں کہ وہاں پر پانی ختم ہو چکا ہے جس کی وجہ سے لوگ گندا پانی پینے پر مجبور ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں یہی صورت حال جاری رہی تو لوگ آلودگی اور وبائی امراض سے موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔

اِدھر اسرائیل کی بمباری سے متاثرہ علاقے غزہ میں امدادی سامان کے قافلے آج داخل ہونا شروع ہوں گے۔

پاکستان کی جانب سے بھی فلسطینی عوام کی مدد کے لیے امدادی سامان کی پہلی کھیپ مصر پہنچا دی گئی ہے جہاں سے غزہ کے متاثرہ لوگوں تک پہنچائی جائے گی۔

برادرم سہیل وڑائچ سے!



تحریر:۔ عطاالحق قاسمی

برادرم سہیل وڑائچ میرے پسندیدہ کالم نگار، اینکر اور تجزیہ نگار ہیں، وہ معقول اور مقبول شخصیت ہیں،عاجزی اور انکساری ان کی شخصیت کا ایک اور روشن پہلو ہے۔ وہ بہت پڑھے لکھے ہیں اس کے باوجود ان کی تحریر اور گفتگو مجھ ایسے ان پڑھ کو کسی کمپلیکس میں مبتلا نہیں کرتی میں ان سے بہت محبت کرتا ہوں کیونکہ وہ بھی مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں، اللہ کرے میں نے ان کی بڑائی کے حوالے سے شروع میں جو باتیں سچے دل سے کی ہیں وہ موقع ملنے پر کچھ اسی قسم کی باتیں میرے حوالے سے جھوٹےمنہ ہی کر دیں!

تفنن برطرف میں نے سہیل وڑائچ کا کوئی کالم ٹی وی پر ان کا پروگرام اور کسی پروگرام میں ان کی بطور مہمان گفتگو بھی کبھی مس نہیں کی ۔انہوں نے تقریباً سال بھر سے کوئی کالم نہیں لکھا تھا اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو اس عرصے میں ان کا آخری کالم غالباً اپریل 2022میں شائع ہوا تھا جو حمزہ شہباز کے حوالے سے تھا اور انہوں نے شریف خاندان کے اس سپوت کے بہت سے روشن پہلو بیان کئے تھے اس کے بعد ان کا کالم آج شائع ہواہے جو چار سال بعد محمدنواز شریف کی لندن سے پاکستان آمد اور ان کی ممکنہ وزارت عظمیٰ کے حوالے سے ہے ۔

سہیل کا یہ کالم بھی ان کی متوازن سوچ کا آئینہ دار ہے انہوں نے لکھا ہے کہ معاملات صرف اسٹیبلشمنٹ اور ان کے درمیان ہی طے نہیں ہوئے بلکہ اس حوالےسے پاکستان کے دوست ممالک کی معاونت بھی شامل نظر آتی ہے ۔یوں محسوس ہوتا کہ دوست ممالک نے پاکستان کی مالی امداد کا جو اشارہ دے رکھا ہے اس کے لئے شرط یہ باندھی گئی ہے کہ ایسا سیاسی چہرہ لایا جائے جو لانگ ٹرم معاشی پالیسی کی ضمانت دے ۔سہیل وڑائچ کے مطابق اگر یہ سب کچھ طے نہ ہوا ہوتا تو وہ واپس ہی نہ آتے ان کے بقول یہ بھی صاف نظر آرہا ہے کہ اگر وہ اکیس اکتوبر کو واپس آ گئے تو جیل نہیں جائیں گے بلکہ انہیں ریلیف دے کر سیاسی میدان میں فری ہینڈ دیا جائے گا، یہ بھی تقریباً طے ہے کہ اگر وہ واپس آتے ہیں تو الیکشن کرائے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوگا اور پھر جب ملک میں الیکشن کی سیاست ہو گی تو پھر تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین کے بارے میں بھی فیصلے جلد از جلد کرنا پڑیںگے۔سہیل وڑائچ نے مستقبل کا احوال اپنے نقطہ نظر سے بیان کر دیا ہے اور اس میں بھی ان کی متانت پوری طرح جھلکتی ہے۔تاہم آگے چل کر انہوں نے کچھ ایسی باتیں بھی کی ہیں جن کے بارے میں مزید اظہار خیال کی خاصی گنجائش موجود ہے ۔مجموعی طور پر انہوں نے کہا ہے کہ نواز شریف ممکنہ طور پر واپس آکر، پی ٹی آئی کے چیئرمین نے ان کے ساتھ اور ان کی پارٹی کے ساتھ جو کچھ کیا تھا،اس کا بدلہ لیں گے اور یہ کہ جمہوریت کی بقااور اس کے تسلسل کیلئے ایسا نہیں کیا جانا چاہئےبلکہ مفاہمت کا راستہ تلاش کیا جائے۔سہیل وڑائچ نے بتایا ہے کہ لندن میں نواز شریف سے ملاقات کے دوران انہوں نے یہی باتیں نواز شریف سے بھی کی تھیں۔

جہاں تک چیئرمین پی ٹی آئی سے مفاہمت کے حوالے سے سہیل وڑائچ نے کہا ہے تو اس کالم میں وہ بتاتے ہیں کہ نو مئی کے واقعہ سے پہلے ان کی تین ملاقاتیں چیئرمین سے ہو ئی تھیںایک ملاقات میں ان کے ساتھ مجیب الرحمان شامی بھی تھے، دوسری ملاقات امتیاز عالم اور ان کے وفد کے ہمراہ ہوئی ، تیسری ملاقات میں اسلام آباد اور لاہور کے نمایاں ٹی وی اینکر موجودتھے ،ان تینوں ملاقاتوں کا محور یہی تھا کہ حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں سے پی ٹی آئی مذاکرات کرے مگر چیئرمین کا موقف یہ تھا کہ وہ ان کرپٹ سیاسی حکمرانوں کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے ۔انہیں دوسرا مشورہ یہ دیا گیا تھا کہ آپ اسٹیبلشمنٹ سے اپنے بگڑے ہوئے معاملات درست کریں، انہوں نے کہا وہ اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ کرتے ہیں مگر ادھر سے کوئی مثبت جواب نہیں ملتا۔

ان سطور سے پتہ چلتا ہے کہ چیئرمین جن لوگوں کو کرپٹ کہتے رہے ہیں اور نہ صرف مسلسل کہتے رہے ہیں بلکہ ان کے نام بھی بگاڑتے رہے ہیں ان کے پیرو کاروں نے گالی گلوچ کا بازار بھی گرم رکھا ہے اور مسلسل چار سال لندن میں نواز شریف کی قیام گاہ کے باہر ’’چور، چور، ڈاکو، ڈاکو‘‘ کے نعرے لگاتے رہے۔ لندن میں بھی اور پاکستان میں بھی ان سے اختلاف رکھنے والے سیاست دانوں پر بھی آوازے کسنے کا سلسلہ جاری رہا۔اب چیئرمین ان کرپٹ سیاست دانوں کے ساتھ کیسے مفاہمت کریں گے اور جنہیں بدترین جیلوں میں رکھا گیا اور ان کی ہر طرح کردار کشی کی گئی وہ ان سے مفاہمت کیوں چاہیں گے اور یہ مفاہمت کن شرائط پر ہو گی۔ یہ سوچیں اور اس کے ساتھ یہ بھی کہ دونوں ’’گروہ‘‘کس دل گردے سے یہ معاملات طے کریں گے۔جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کا معاملہ ہے نومئی کے بعد وہ سب کچھ بھول جائیں گے جو عسکری تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں کے ساتھ کیا گیا ؟ اور وہ سب غلیظ گالیاں بھی جو فوج اور اس کی قیادت کے خلاف آج تک جاری ہیں۔اور ایک سوال یہ بھی کہ اس صورتحال کے پس منظر میں ممکنہ وزیر اعظم ،چیئرمین کو از خود رہا بھی کریں گے اور ان کی پارٹی کو الیکشن میں حصہ دینے کیلئے اپنی پوری کوشش بھی کریں گے؟میرے خیال میں یہ سب کچھ حقیقت پسندانہ نہیں ہے بلکہ جو جمہوری تسلسل شروع ہونے والا ہے وہ اپنے آغاز ہی میں دم توڑ دے گا!ہم نواز شریف سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنے اندر ولیوں کے اوصاف پیدا کریں اور وہ سب کچھ بھول جائیں جو انہوں نے نواز شریف ان کی پارٹی اور ملک وقوم کے ساتھ کیا۔جس نے ایک ایسی سیاست کی بنیاد ڈالی جو ہماری نئی نسل کے رگ و پے میں بھی رچ بس گئی ہے۔ چلیں بالفرض محال وہ سب کچھ ہو جائے جو برادرم سہیل وڑائچ کے نزدیک جمہوریت کے تسلسل کیلئے ضروری ہے تو کیا گارنٹی ہے کہ اپنے عشق میں بہت بری طرح مبتلا اور دوسروں کو بدترین مخلوق سمجھنے والاچیئرمین اس کے بعد ایک نیا جنم لے گا اور وہ ایک سیاست دان کی طرح بی ہیو کرنے لگے گا؟ میرے خیال میں برادرم سہیل وڑائچ بھی شاید اس حوالے سے ضمانت نہ دے سکیں۔اپنے کالم کے آخر میں سہیل وڑائچ نے بجا طور پر کہا ہے کہ ملک میں ابتری کی جو فضا پیدا ہوئی اس سے کسی کو فائدہ نہیں ہوا اور نہ آئندہ ہو گا ۔اس کے بعد انہوں نے ساری امیدیں نواز شریف سے باندھی ہیں اس بیان کے حوالے سے میں اس امیدکا اظہار کرتا ہوں کہ نواز شریف واپس آکر اپنی فراست سے کام لیتے ہوے پیچیدہ مسائل حل کریں گے۔ملک کو اسی طرح ترقی کی راہ پر چلائیں گے جو ماضی میں ان کا وطیرہ رہا ہے اور جس کے سبب ہر بحران کےبعد ملک و قوم کو ان کی ضرورت پڑتی ہے۔

میں آخر میں سہیل وڑائچ کی اس بات سے سوفیصد اتفاق کرتا ہوں کہ کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونی چاہئے ،کسی کو انتقام کا نشانہ نہیں بنانا چاہئے، ہر ایک کےساتھ آئین اور قانون کے مطابق انصاف ہونا چاہئے کہ آئین اور قانون سے کوئی مبرا نہیں!

بشکریہ جنگ نیوز اردو

نواز شریف کی بطور وزیراعظم واپسی



تحریر:۔ حفیظ اللہ نیازی

نواز شریف بطور وزیراعظم 21 اکتوبر کو ایسے قدم رنجا فرمانے کو کہ کل 10 سال کی سزا سنانے والا جج بشیر آج نواز شریف کی حفاظت کا ضامن بن چُکا، دوسری طرف اسلام آباد ہائی کورٹ ’’بقول شخصے نواز شریف نے جس عدالت کا کل تمسخر اُڑایا تھا‘‘، آج اُسی عدالت نے بلا حیل و حجت ضمانت دے دی ، بدلتا ہے آسماں رنگ کیسے کیسے۔ 22 مارچ 2018 جنگ میں یہ کالم ’’کوئی تو ہے جو نظام وطن چلا رہا ہے‘‘ چھپا تھا۔ نواز شریف واپسی کی مناسبت سے مختصر کر کے، یادش بخیر اپنی پیشن گوئیاں دوبارہ آپکی نذر ۔

’’نواز شریف اور خاندان کڑے مقدمات میں اس طرح ملوث، آرٹیکل10(A) ابدی نیند میں، مقدمات منطقی انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں، فقط نگران حکومت کا انتظار ہے۔ سپریم کورٹ کی مصروفیات دیدنی، عدالتی ہاتھ انتظامیہ کو دبوچنے، سدھارنے میں کامیاب، اب سیاست کو ٹھیک کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ آنے والے دنوں میں لیگی سیاستدانوں کو مثال بنانا ہے۔ لیگی رہنماؤں کی نا اہلیاں آئے دن متوقع ہیں۔ پیغام واضح گھر گھر پہنچایا جا رہا ہے، راستے دو ہی ’’ن لیگ چھوڑیں یا نااہلی سمیٹیں‘‘۔ ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘، الیکشن دھاندلی، پاناما کیس، نواز شریف نا اہلی، بلوچستان حکومت کی زمین بوسی، نواز شریف کی بحیثیت صدر معزولی، سینٹ چیئرمین کا دن دیہاڑے ’’صاف شفاف‘‘ انتخاب، خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوںکہ کسی ایک عمل یا دیگر درجنوں کار ہائے نمایاں میں زرداری عمران کا کوئی عمل دخل اور نہ ہی کوئی قصور۔

بات پرانی وہی کہانی، 2017 میں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے معزولی پر ن لیگ نے تتر بتر ہونا تھا، امیدیں خاک رہیں۔نئی ضد سامنے آئی کہ نواز شریف کو صدارت سے ہٹائو، ن لیگ ٹوٹ جائے گی، کام نہ بنا۔ شیر کا نشان نہ دے کر بھی دیکھا، قوم دھوکا کھانے پر آمادہ نہ ہوئی۔ اگرچہ نیا بڑا سیاسی پلیٹ فارم تشکیل پانے کو، کنونشن لیگ اور ق لیگ جیسی ’’قومی لیگ‘‘ بننے کو۔ کنونشن لیگ، ق لیگ، آئی جے آئی جو نام بھی، تاریخ سے یہی ثابت، استعمال کے بعد کوڑا دان ہی آخری آرام گاہ رہنی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو یا نواز شریف دونوں کی اٹھان اسٹیبلشمنٹ کی سیاست سے ضرور رہی، بچ گئے کہ بھٹو صاحب 1966میں اسٹیبلشمنٹ کےسامنے خم ٹھونک کر جبکہ نواز شریف 1993 میں صدر اسحاق اور جنرل اسلم بیگ سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو گئے۔ اسٹیبلشمنٹ کیلئے بھی سوچنے کا مرحلہ، جس کسی نے اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لی، رفعت اور مقام پایا۔

ایک تاثر یہ بھی ہے کہ سول ملٹری تعلقات کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتے، 70سالہ تاریخ تائید کرتی ہے۔ سویلین حکومت سے’’ناچاقی‘‘ اداروں کی طبیعت میں رچ بس چکی ہے۔ پچھلے چند دنوں سے شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کو منانے میں مستعد اور روبہ عمل ہیں۔ یقین دلاتا ہوں، خدا کے گھر جائیں یا خدا کی شان دیکھیں، اگلوں کے ارادے غیر متزلزل، مستقل مزاجی شعار ہے۔ ابھی سے ن لیگ کے ممبران اسمبلی کو واضح پیغامات پہنچائے جا رہے ہیں، پی ٹی آئی جوائن کرو یا گھر بیٹھ جائو‘‘۔ ایسی جامع تجویز کتنے لوگ پلے باندھتے ہیں، وقت بتائے گا؟ پس پردہ قوتوں کی ساری منصوبہ بندی، ’’سب کچھ درست‘‘ سمت میں جا رہا ہے۔ بلاشبہ سیاست کا محور و مرکز نواز شریف مزید مستحکم و مضبوط ابھر کر سامنے آ چکے ہیں۔ آنے والے عام انتخابات میں کسی طور عام آدمی کو ووٹ استعمال کرنے کی آزادی رہی تو سارے سروے، ماضی کے ضمنی الیکشن، نواز شریف کی پبلک پذیرائی، بے شمار آثار نواز شریف کی جیت یقینی بتا رہے ہیں۔ سب کچھ کے باوجود نواز شریف کیلئے’’سب اچھا‘‘ نہیں ہے۔

تاریخ میں درج ایک سبق اور بھی، بے نظیر1988 کے الیکشن جیت کر حکومت بنانے میں کامیاب ضرور ہوئیں، وزیر تک اپنی مرضی کے نہ بنا سکیں، 2سال 5 ماہ بعد گھر بھیج دیا گیا۔ مثال اس لئے، بفرض محال، ن لیگ کی کامیابی کی صورت میں، نئی حکومت کو ہر گز کام کرنے نہیں دیا جائے گا۔ موجودہ دنگل نے جاری رہنا ہے۔ ہمارے مستعد ادارے، امپائروں نے اپنا اور قوم کا قیمتی وقت جس طرح پچھلے چار سال میں حکومت کی اکھاڑ پچھاڑ میں خرچ کیا۔ نواز شریف کے دوبارہ اقتدار میں آنے پر آنے والے دنوں میں یہی کاروبار یکسوئی سے جاری رہنا ہے۔ مجھے قوی امید ہے، نگران حکومت کی مطلق العنانی، نواز شریف کی زباں بندی، شریف خاندان کی قید و بند، دیگر رکاوٹوں، دبائو لالچ سے شاید ’’قومی لیگ‘‘، ’’سینٹ ماڈل اسٹائل‘‘ نئی حکومت بنالے گی۔ حکومت چلانا خالہ جی کا کام نہیں اور وہ بھی چوں چوں کے مربے سے، شک نہیں کہ ’’بھان متی کے کنبہ‘‘ کو شاندار ناکامی دیکھنا ہے۔

وطن عزیز کا تو نقصان ہی نقصان جبکہ نواز شریف کی واضح اور روشن کامیابی مستند رہنی ہے۔ نواز شریف ان چند سال میں اقتدار سے ضرور باہر، ناقابل تسخیر بن جائیں گے۔ ایسے مضبوط و مقبول کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر رہے گی۔ دو قومی جماعتیں پیپلز پارٹی، خصوصاً تحریک انصاف سیاسی طور پر سب سے زیادہ نقصان اٹھائیں گی۔ قومی سانحہ کہ قومی پارٹیاں اپنے لیڈروں کی بدمستیوں اور بد نیتیوں کا اس طرح خمیازہ بھگتیں گی۔ نواز شریف کے 2018 میں اقتدار میں نہ آنے کا ایک اور فائدہ بھی، 70 سال سے بگڑے سول ملٹری تعلقات کو حالات کے جبر اور نامساعد ملکی حالات، ہمیشہ کیلئے ڈھنگ پر لے آئیں گے۔نواز شریف کو گارنٹی دیتا ہوں کہ2023 یا اس سے بھی ایک آدھ سال پہلے اقتدار خود بخود انکے قدموں میں آنا ہے کہ قومی افق پر ایک ہی سیاسی رہنما، جناب ہی نے تو بچنا ہے۔ جبکہ ‘1971میں عبرتناک شکست کے بعد صدر جنرل یحییٰ نے نور الامین اور ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار گھر جا کرہی تو دیا تھا۔ اگلے دو تین سال میں مقتدر پارٹیوں کا مقدر خواری ورسوائی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ ن لیگ کو جب دوبارہ 2023میں اقتدار ملے گا تو سول ملٹری تنازع کی وجہ نزاع کا تدارک ہوچکا ہوگا۔ البتہ ایک شرط کڑی، اس کھینچا تانی میں، پاکستان کا سلامت رہنا ضروری ہے کہ آنیوالے دن وطن عزیز پر بہت کڑے ہیں‘‘۔ (5 سال 7 ماہ پہلے لکھا گیا کالم، آج دوبارہ دیکھا تو لگا آج کے عمران خان اور تحریک انصاف پر لکھا ہے) ۔

شذرہ: ’’دوست‘‘ شاید ٹویٹ کا بُرا منا گئے، حسان خان سے آج ممکنہ ملاقات نہ ہو سکی۔ حقی سچی طاقت کے اندر ایک بڑا پن ہوتا ہے۔ افسوس کہ ہمارے ہاںکی طاقت میں ایسی معمولی خوبی کا بھی فقدان ہے۔

بشکریہ جنگ نیوز اردو

نواز شریف کو وطن واپسی پر گرفتار نہ کیا جائے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے حفاظتی ضمانت منظور کر لی



اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم و قائد پاکستان مسلم لیگ ن نوازشریف کی حفاظتی ضمانت منظور کر لی ہے اور انہیں وطن واپسی پر گرفتار کرنے سے روک دیا ہے۔

عدالت العالیہ اسلام آباد نے العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنسز میں نواز شریف کی 24 اکتوبر تک حفاظتی ضمانت منظور کی ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس گل حسن اورنگزیب نے العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنسز میں نواز شریف کی حفاظتی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کی۔

اس موقع پر نواز شریف کے وکلا امجد پرویز اور اعظم نذیر تارڑ عدالت میں پیش ہوئے، جبکہ نیب پراسیکیوٹر رافع مقصود اور افضل قریشی نے پیروی کی۔

اعظم نذیر تارڑ نے احتساب عدالت سے وارنٹ معطلی کے احکامات کا بتایا جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا وہ آرڈر آپ کے پاس ہے۔ اعظم نذیر تارڑ نے جواب دیا کہ ہمارے وکلا احتساب عدالت سے آ رہے ہیں۔

ہائیکورٹ نے احتساب عدالت کے فیصلے کو مد نظر رکھتے ہوئے نواز شریف کی 24 اکتوبر تک حفاظتی ضمانت منظور کر لی ہے اور گرفتاری سے روک دیا ہے۔

فلسطین میں امدادی سامان بھیج رہے ہیں فوج نہیں: پاکستان



ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے کہا ہے کہ غزہ کی صورتحال پر پاکستان سمیت ہر شخص تشویش میں مبتلا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے فلسطین کی حفاظت کے لئے فوج بھیجنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ دفتر خارجہ میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے غزہ میں جاری اسرائیلی مظالم کے حوالے سے پاکستان کا موقف واضح کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ امن اور مذاکرات کی بات کی، توقع ہے کہ یو این سیکیورٹی کونسل غزہ کی صورتحال پر خاطر خواہ اقدامات کرے گا۔
ممتاز زہرابلوچ کا کہنا تھا کہ پاکستان او آئی سی ایگزیکٹو کمیٹی اعلامیے کا خیر مقدم کرتا ہے، اعلامیے میں غزہ کی ناکہ بندی اور جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا۔ غزہ معاملے پر ترکیہ کی جانب سے گارنٹر کی بات کی گئی، گارنٹر پلان سے امن آتا ہے تو پاکستان خیر مقدم کریگا۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کی ابتر صورت حال کے پیش نظر امدادی سامان بھیجا جا رہا ہے، آج سہ پہر کو چارٹرڈ طیارے کے ذریعے سامان مصر روانہ کیا جائے گا جو بعد میں غزہ پہنچے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم مشرق وسطیٰ میں امن کے خواہاں ہیں، اسرائیلی وزیراعظم کا بیان مسترد کرتے ہیں کیوں کہ پاکستان کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات پر بیان بازی نہیں کرتا۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ نگران وزیراعظم انوارالحق چین کے دورے پر ہیں، انہوں نے چینی وزیراعظم سے ملاقات کی ہے اور اس دوران سی پیک سمیت دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ممتاز زہرا نے کہا کہ انوارالحق کاکڑ کی آج چینی صدر سے بھی ملاقات ہو گی، جس کے بعد نگراں وزیراعظم آج رات کو ارومچی روانہ ہو جائیں گے اور کل وطن واپس پہنچیں گے۔
انہوں نے بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کا بیان حقائق کے برعکس ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ جو غیر قانونی تارکین وطن 31 اکتوبر تک نہیں جائیں گے یکم نومبر سے ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

مجھے آپ پر 100 فیصد یقین ہے: بابر اعظم کا کھلاڑیوں کو پیغام



قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابراعظم نے کہا ہے کہ کھلاڑی ٹریننگ سیشن میں جیسا کرتے ہیں ویسے ہی میچ کے دوران کریں، اس میں زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں۔

جمعہ 20 اکتوبر کو آسٹریلیا کے خلاف میچ سے قبل قومی کپتان بابراعظم نے کھلاڑیوں کے ساتھ بات چیت کی ہے۔

بابراعظم نے کھلاڑیوں کو اعتماد دیتے ہوئے کہا کہ مجھے آپ پر 100 فیصد یقین ہے، لہٰذا آپ بھی یقین کے ساتھ میدان میں اتریں۔

قومی کرکٹ ٹیم آج چناسوامی اسٹیڈیم میں ٹریننگ سیشن میں حصہ لے رہی ہے جبکہ کل آسٹریلیا کے ساتھ سامنا ہو گا۔

واضح رہے کہ قومی کرکٹ ٹیم نے اس سے قبل 3 میچ کھیلے ہیں جن میں 2 میچوں میں کامیابی سمیٹی ہے جبکہ ایک میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں پن بجلی کی پیداوار میں اضافہ



لاہور( این این آئی) مالی سال 2023-24 پاکستان میں پن بجلی کی پیداوار میں اضافہ کے حوالے سے اہم سال ثابت ہورہا ہے۔ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران واپڈا پن بجلی گھروں نے نیشنل گرڈ کو 15 ارب 2لاکھ یونٹ پن بجلی مہیا کی ہے، جو پچھلے سال اسی عرصہ کے دوران پیدا ہونے والی پن بجلی کے مقابلے میں ایک ارب 78کروڑ 80 لاکھ یونٹ زیادہ ہے۔

اِس اضافی پن بجلی کی پیداوار سے قومی خزانے کو تقریباً 50 ارب روپے کی بچت ہوئی ہے، اگر پن بجلی کی اِس اضافی پیداوار کے برابر درآمدی فرنس آئل سے بجلی پیدا کرنا پڑتی تو قومی خزانے کو تقریباً 50 ارب روپے مزید خرچ کرنا پڑتے۔

مذکورہ سہ ماہی کے دوران پن بجلی کی پیداوار میں اضافہ کے عوامل میں پانی کی بہتر صورتِ حال، واپڈا پن بجلی گھروں کے موثر آپریشن اور دیکھ بھال کے علاوہ رواں سال اگست میں نیلم جہلم ہائیڈل پاور سٹیشن سے بجلی کی پیداوار کا دوبارہ آغاز شامل ہیں۔

کرکٹ ورلڈ کپ: بنگلا دیش کی بھارت کے خلاف بیٹنگ جاری



کرکٹ کا عالمی مقابلہ بھارت میں جاری ہے، ایونٹ کے 17ویں میچ میں آج بھارت اور بنگلا دیش کی ٹیمیں مد مقابل ہیں۔

بنگلا دیش نے بھارت کے خلاف ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد کھیل جاری ہے۔

کرکٹ ورلڈ کپ کا 17واں میچ بنگلا دیش اور بھارت کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان بھارتی شہر پونے میں مہاراشٹرا کرکٹ ایسوسی ایشن کرکٹ سٹیڈیم میں ہو رہا ہے۔

بھارت کی کرکٹ ٹیم نے اب تک 3 میچز کھیلے ہیں اور ناقابل شکست ہے جبکہ بنگلا دیش کی ٹیم نے 3 میچز کھیل کر ایک میں کامیابی حاصل کی ہے اور 2 میچوں میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

آج کے میچ کے لیے بھارتی اسکواڈ میں روہت شرما، شبمن گل، ویرات کوہلی، شریاس، کے ایل راہول، ہاردک پانڈیا، جدیجا، شردل، بمراہ، کلدیپ یادیو، محمد سراج شامل ہیں۔

بنگلا دیش کے اسکواڈ میں نجم الحسین، لٹن داس، مہدی حسن مرزا، مشفیق الرحیم، توحید، محمداللہ، نسوم احمد، حسن محمود، مستفیظ الرحمان، شریف الاسلام شامل ہیں۔

حکومت پاکستان سرمایہ کاروں کو ہر ممکن سہولیات فراہم کرے گی: نگران وزیراعظم



نگران وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے عمل کو آسان بنانے کے لئے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا قیام عمل میں لایاگیا ہے اور حکومت سرمایہ کاروں کو ہر ممکن سہولت فراہم کرے گی۔

وزیراعظم انوارالحق کاکڑ سے دورہ چین کے دوران مِن میٹلز کے چیئرمین وینگ ژولیانگ اور میٹالرجیکل کوآپریشن آف چائنا کے چیئرمین چن جیانوانگ نے ملاقات کی۔

ملاقات میں پاکستان میں کان کنی اور معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔ دونوں کمپنیوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔

وزیرِ اعظم نے شرکا کو حکومت کی کاروبار دوست پالیسیوں کے بارے آگاہ کیا۔

وزیرِ اعظم نے شرکا کو خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل بارےبھی آگاہ کیا اور بتایا کہ حکومت” ہول آف دی گورنمنٹ اپروچ”کے تحت پاکستان میں سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے اقدامات کر رہی ہے۔

قبل ازیں انوارالحق کاکڑ سے سی ای او چائنا کمیونیکیشنز کنسٹرکشن کمپنی وانگ ہائی ہوائی اور چیئرمین چائنا روڈ اینڈ برج کارپوریشن نے ملاقات کی۔

وزیرِ اعظم نے کہا کہ پاکستان ملک بھر میں انفراسٹرکچر کی ترقی کیلئے اقدامات اٹھا رہا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو ٹرانزیشنل اکانومی بنانے اور ملک میں سیاحت کی ترقی کیلئے ریلوے اور روڈ انفراسٹرکچر انتہائی ضروری ہے۔

وزیرِ اعظم نے چینی کمپنیوں کی پاکستان میں سرمایہ کاری میں اضافے میں دلچسپی کا خیر مقدم کیا۔