تحریر:۔ عطاالحق قاسمی
اللہ نہ کرے آپ میں سے کسی کو کوئی بیماری لاحق ہو، خواہ پراسٹیٹ کا پرابلم ہو، نزلہ زکام، کھانسی، قبض ہو، خدانخواستہ کینسر ہو،گھٹنوں میں تکلیف ہو، ہارٹ کا مسئلہ ہو، آپ کو گھبرانے کی ضرورت نہیں، میں ان میں سے کچھ بیماریاں بھگتا چکا ہوں اور کچھ مجھے بھگت رہی ہیں، میری آئے روز کسی نہ کسی ڈاکٹر سے DATE ہوتی ہے، بس ہم ایک دوسرے کو پھول پیش کرتے ، صرف محبت بھری باتیں ہوتی ہیں اور ان کا تعلق کسی نہ کسی بیماری سے ہوتا ہے، اصل میں ڈاکٹر صاحب کو میری بیماری سے پیار ہوتا ہے کہ انکے گھر کا چولہا اسی سے چلتا ہے اور مجھے ڈاکٹر کی ان ادویات کے حوالے سے جو میری جیون ساتھی بن چکی ہیں، اور ہاں ایک شے تو میں بھول ہی گیا تھا اور وہ یہ کہ میں پاگل ہوں، ہر وقت بس اسی سوچ میں گم رہتا ہوں کہ ہمارے عوام اور ہمارے حکمران کب ٹھیک ہونگے، عوام میں خود ہوں، اور میرا ٹھیک ہونے کا کوئی ارادہ نہیں، حکمران کہتے ہیں ہم ٹھیک ہو جائینگے،یہ مسئلہ کئی دہائیوں سے چل رہا ہے چنانچہ دونوں ہر وقت مشکل میں رہتے ہیں۔
چلیں باقی باتیں بعد میں ہوں گی پہلے میں آپ کو اپنے پاگل پن کی ابتدائی کہانی سنا لوں، یہ ان دنوں کی بات ہے جب میرے پاس لمبریٹا اسکوٹر ہوتا تھا۔ میں ایک دوست کے پاس بیٹھا تھا کہ اچانک میں گم سم ہوگیا۔ میں بول سکتا تھا، سن سکتا تھا مگر لگتا تھا یہ سب کچھ خواب میں ہو رہا ہے، مگر عجیب بات ہے کہ میں نے اس وقت اپنا اسکوٹر اسٹارٹ کیا اور اسی ٹرانس کی حالت میں اللہ جانے کیسے میوہسپتال سیدھا سائیکائٹرسٹ کے کمرے میں پہنچ گیا۔ اس نے میری باتیں سنیں اور پھر پوچھا آپ نماز پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، چونکہ اس وقت میری دماغی حالت ٹھیک نہیں تھی چنانچہ میں سمجھا کہ میں فوت ہوگیا ہوںاور منکر نکیر میرے ایمان کے بارے میں تفتیش کرنے آگئے ہیں۔ سو میں نے ان کے سوالوں کے جواب دیئے اور ڈاکٹر صاحب نے بہت ساری ادویات کی فہرست میرے ہاتھ میں تھما دی۔ میں نے فوراً ان کا استعمال شروع کردیا اور اس کے نتیجے میں بلاوجہ او ر بلاموقع خوش رہنے لگا۔ انہی دنوں میرے ایک دوست کے والد کا انتقال ہوا، میں تعزیت کیلئے گیا اور اسے گلے لگاتے ہوئے کہا یار بہت افسوس ہوا مجھے سارے گندے لطیفے مرحوم سنایا کرتے تھے، پھر میں نے مرحوم کی یاد تازہ کرنے کیلئے ایک لطیفہ اس دوست کو سنانے کی کوشش کی مگر اس کی آنکھوں میں غیظ و غضب کی چنگاریاں دیکھ کر حوصلہ نہیں پڑا۔ خیر ان ادویات کے اتنے گھٹیا قسم کے آفٹر افیکٹس دیکھ کر میںنے یہ کورس پورا نہیں کیا اور درمیان میں چھوڑ دیا۔ ایک دن ہو بہو میری وہی حالت ہوئی اور میں ایک بار پھر اسی ٹرانس میں چلا گیا۔ میں جس دوست کے پاس بیٹھا تھا اس کے ملازم نے کھانے پینے کی چیزیں میز پر سجا دیں، مجھے پیاس محسوس ہو رہی تھی چنانچہ میں نے ایک مشروب اپنے اندر انڈیل لیا اور دوبارہ ڈاکٹر کے پاس جانےکیلئے اٹھ کھڑا ہوا، مگر میں نے محسوس کیا کہ شربت پینے کے بعد میں بالکل نارمل ہوگیا ہوں، میں اس ٹھنڈے میٹھے شربت کے اس جادو سے بہت حیران ہوا مگر بعد میں پتہ چلا کہ نہ اس روز اور نہ آج مجھے کوئی دماغی مسئلہ تھابلکہ میری شوگر لو ہوئی تھی جو ایک میٹھے شربت نے پوری کردی۔
یہ حکایت خاصی طویل ہوگئی مگر چلتے چلتے یہ بھی بتاتا چلوں کہ دماغ کی ایک اور نوع کی خرابی اب بھی موجود ہے اور وہ یہ کہ ہر وقت اس سوچ میں ہوتا ہوں کہ ملک و قوم کا کیا بنے گا، گھروں میں غربت کی سب سے نیچے لکیر میں زندگی بسر کرنے والے ہمارے لئے انواع و اقسام کے کھانے بناتے ہیں اور انکے گھروں میں محرومیوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، وہ ہمارے بچوں کو اسکول چھوڑنے جاتے ہیں اور ان کے اپنے بچے تعلیم سے محروم ہیں وہ ہمارے وسیع و عریض اور سجے سجائے گھر دیکھتے ہیں جہاں سے واپس انہیں اپنے ایک کمرے کے گھر میں جانا ہوتا ہے، بس اس قسم کی سوچیں مجھے پاگل بنائے رکھتی ہیں، اس کا علاج میرے ایک دوست نے بتایا ،اس نے پوچھا تم نے اقبال کا وہ مصرعہ سنا ہوا ہے ’’درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو‘‘ میں نے کہا ہاں سنا ہوا ہے۔ کہنے لگا بس آج کے بعد تم یہی سمجھو کہ تم نے یہ مصرعہ کبھی سنا ہی نہیں، ہمیشہ سکھی رہو گے۔ میں نے اس کے بعد اپنے اس دوست کو بھی ڈاکٹر کہنا شروع کردیا ہے کیونکہ مجھے اس کی ’’دوا‘‘ سے بھی آرام نہیں آیا اور باقی رہے وہ امراض جن کا میں نے کالم کے آغاز میں بیان کیا ہے اور جن کے بارے میں ایک شاعر نے کہا ہے ؎
ایک دکھ ہو تو کوئی اس کا مداوا بھی کرے
دردِ دل، دردِ جگر، دردِ کمر تینوں ہیں
تو میں نے جو بیماریاں بیان کی تھیں ان میں سے دل میں درد کا ایک مجرب نسخہ ایک شاعر نے عطا کر رکھا ہے اور وہ کچھ یوں ہے ؎
ہاتھ رکھ کر میرے سینے پہ وہ فرمانے لگے
درد کیوں ہوتا ہے، کب ہوتا ہے، اب ہوتا ہے
اور جہاں تک باقی امراض کا تعلق ہے، آپ میرے پاس تشریف لائیں، اپنا مرض بتائیں اور مجھ سے نسخہ لکھوا کرلے جائیں، کیونکہ میں مختلف النوع بیماریوں کوبھگت چکا ہوں ، ان کیلئےڈاکٹروں نے مجھے جو ادویات تجویز کی تھیں وہ میرے پاس لکھی ہوئی ہیں، میں آپ کوبھی وہی لکھ دوں گا کہ ڈاکٹر کے پاس جائیں گےتو وہ بھی یہی لکھ کر دیگا۔ میں آپ سے کوئی فیس بھی طلب نہیں کروں گا، اپنی خوشی سے جو دیں گے قبول کرلوں گا۔