تحریر:۔ سلیم صافی
گزشتہ ڈیڑھ ماہ علیل رہا۔علالت اتنی شدید تھی کہ ڈاکٹروں نے ذہنی دبائو سے بچنے کیلئےنیوز چینلز ،سوشل میڈیااور اخبار دیکھنے سے بھی گریز کی ہدایت دی تھی۔ اسلئے میں اس دوران سیاسی، معاشی اورخارجی محاذوں پر ہونے والے واقعات اور پیش رفت سے بے خبر رہا۔ حتیٰ کہ فلسطین میں نئی جنگ کا دو روز بعد پتہ چلا۔اللہ رب العالمین کے بے پناہ کرم اور کرم فرمائوں کی دعائوں کی برکت سے الحمدللہ اب میرے انفیکشنز مکمل ختم ہوگئے ہیں۔ اس دوران مجھے یہ سبق ملا کہ ہم روز میڈیا سے اس سوچ کے ساتھ جڑے رہتے ہیں کہ نہ جانے ایک منٹ میں کونسی قیامت آئی ہوگی لیکن اگر ہم سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر اپنا وقت صرف نہ کریں تو بھی کوئی قیامت نہیں آتی ۔ دوسرا سبق یہ ملا کہ ہم میں سے ہر کوئی اپنے آپ کو بہت اہم سمجھتا ہےحالانکہ ہم نہیں ہوں گے یا اس دنیا سے جائیں گے، تو دو دن بعد ہماری جگہ کوئی اور پُر کردیگا۔اسی لئے اللہ نے سورہ آل عمران میں ارشاد فرمایاہے کہ :اور یہ دن ہیں جو ہم لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں۔
میری غیرحاضری کے دوران ملکی سطح پر کچھ اچھے اور حوصلہ افزا اقدامات بھی ہوئے جن میں ڈالر کی روپے کے مقابلے میں قدر کی کمی اور میاں نواز شریف کی واپسی جیسے اقدامات شامل تھے لیکن ایک تو فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی نئی بربریت کے آغاز اور دوسراافغانستان اور پاکستان کی بڑھتی ہوئی کشیدگی سے بڑا دکھ ہوا۔ فلسطین کا زخم بہت گہرا اور مسئلہ نہائت سنگین ہے لیکن ظاہر ہے اس میں ہم یا ہماری حکومت ایک حد سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتی۔ البتہ افغانستان کا معاملہ ہمارا اپنا کیا دھرا ہے اس لئے اس ضمن میں پہلی گزارش تو یہ ہےکہ حکومت پاکستان اور امارات اسلامی افغانستان دونوں کا ایک دوسرے سے متعلق رویہ مناسب نہیں۔ پاکستان صرف افغان طالبان پر احسانات کو مدنظر رکھ کر مطالبات کررہا ہے اور یہ تاثر دے رہا ہے کہ امارات اسلامی کے ذمہ داران احسان فراموشی کررہے ہیں جبکہ افغان طالبان اس وقت پاکستان کے احسانات کی بجائے ’وار آن ٹیرر ‘میں اس کے امریکہ کا ساتھ دینے اور پچھلے برسوں میں بعض افغان طالبان رہنمائوں کے پاکستان میں قتل کو سامنے لاکر ایسا تاثر دے رہے ہیں کہ پاکستان نے ان کی خاطر کچھ نہیں کیا۔ پاکستان کی یہ تشویش بالکل بجا ہے کہ طالبان کے زیراستعمال افغان سرزمین اسکے خلاف استعمال ہورہی ہے لیکن وہ جس طرح افغان طالبان سے ایک ہی دن میں ٹی ٹی پی کے مسئلے کو حل کرانے کا مطالبہ کررہا ہے، مناسب نہیں اور اسے اماراتِ اسلامی کی اندرونی اور نظریاتی مجبوریوں کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ دوسرا ماضی قریب میں پاکستان نے افغان طالبان کو ایک عذر بھی ہاتھ دے دیا ہے۔ہماری موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت یقیناً اس عمل کی مخالف تھی یا اس میں شریک نہیں تھی لیکن طالبان تو پاکستان کو جنرل باجوہ اور جنرل حافظ عاصم منیر یا پھر عمران خان اور شہباز شریف کے تناظر میں نہیں دیکھتے ۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ ریاست پاکستان نے (جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید ) یا پھر عمران خان کے کہنے پرہم نے ٹی ٹی پی کو پاکستانی نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کیلئے بٹھایا لیکن معاملے کو منطقی انجام تک پہنچائے بغیر پاکستان نے یک طرفہ طور پر وہ سلسلہ ختم کیا۔ اس طرح ہمارے ماضی کے انصار اور محسن (ٹی ٹی پی) کے سامنے ہماری اخلاقی پوزیشن کمزور ہوگئی۔ امارات اسلامی کی طرف سے یہ غلطی ہورہی ہے کہ وہ صرف افغانستان میں رہنے والے افغانوں کے مسائل کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں حالانکہ اگر امارات اسلامی کے کسی قدم کے رد عمل میں مہاجرین کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو روز قیامت اس کا بھی امارات اسلامی کے ذمہ داران سے پوچھا جائے گا ۔ ریاست پاکستان کی یہ خواہش اور کوشش بالکل حق بجانب ہے کہ یہاں پر مقیم غیرملکی خواہ وہ افغانستان کے ہوں، ایران کے یا کسی اور کے ، کو قانونی تقاضے پورا کرنے پر مجبور کرے یا انکی انکے ممالک واپسی کی راہ ہموار کرے لیکن امارات اسلامی سے ناراضی کی سزا مہاجرین کو دینا مناسب نہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جن لوگوں کے ویزے ایکسپائر ہوگئے ہیں یا جن کے پاس قانونی دستاویزات نہیں، وہ زیادہ تر وہ افغان ہیں جو طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد یہاں آئے ہیں ۔ ان لوگوں کی نہ امارات اسلامی سے ہمدردی ہے اور نہ شاید ان کی واپسی سےامارات اسلامی پریشان ہوگی۔ جو طالبان کے وابستگان تھے یا پھر سابق مجاہدین تھے ، ان کی اکثریت کے پاس پاکستان کی قانونی اور کمپیوٹرائزڈ دستاویزات موجود ہیں۔ یوں کارروائی کی زد میں پہلے نمبر پر یا تو وہ افغان آئیں گے جو بالکل بے آسرا ہیں یا پھر وہ آئیں گےجو طالبان کے اقتدار کے بعد یہاں آئے ہیں ۔ ریاست پاکستان سے میری گزارش ہوگی کہ وہ اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے۔ جو لوگ طالبان کے قبضے کے بعد یہاں آئے ہیں، ان کو رجسٹریشن اور طویل المیعاد ویزے جاری کرنے کی سہولت دے۔ اسی طرح یواے ای کی حکومت کی طرز پر امیرافغانوں کیلئے دس سال کے گولڈن ویزے جاری کرنے ، بینک اکائونٹ کھولنے، پراپرٹی خریدنے اور کاروبار کرنے کی اجازت دے۔ اگرچہ وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی بار بار پولیس کو یہ ہدایت کررہے ہیں کہ وہ قانونی دستاویزات رکھنے والے افغانوں کو تنگ نہ کرے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومتی اعلان کے بعد پولیس بہت ساری جگہوں پر قانونی دستاویزات رکھنے والے مہاجرین کو بھی تنگ کررہی ہے ۔ سندھ سے سب سے زیادہ شکایات موصول ہورہی ہیں اور ایسے کیسز بھی ہوئے ہیں کہ جب مہاجر قانونی دستاویزات دکھاتا ہے تو پولیس والا اسے گرفتار کرکے دستاویزات پھاڑ دیتا ہے۔یہاں میں دونوں حکومتوں کو متنبہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ مغربی طاقتیں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت دونوں کو ورغلا کر لڑانا چاہتی ہیں۔ اس لئے پاکستان اور امارات اسلامی کو یہ پہلو بھی مدنظر رکھ کر تحمل سے کام لینا چاہئے اور ایک دوسرے کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کی بجائے ان مجبوریوں کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ آخر میں اپنے ہم پیشہ لوگوں سے ایک اپیل یوں کرنا چاہوں گا کہ گزشتہ برسوں میں ڈیڑھ سو کے قریب افغان صحافی پاکستان آئے۔ ان میں اکثریت کے ویزے کی میعاد ختم ہوگئی ہے ۔ ہم گزشتہ ایک سال سے کوشش کررہے ہیں کہ انہیں لانگ ٹرم ویزے دلوا دیں لیکن کہیں نہ کہیں سے رکاوٹ حائل ہوجاتی ہے جبکہ وہ بیچارے گھروں سے باہر نہیں نکل سکتے اور نہ کوئی روزگارحاصل کر سکتے ہیں۔ میں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ، وزیر داخلہ سرفراز بگٹی اور دیگر متعلقہ بااختیار لوگوں سے دردمندانہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فی الفور ان مردوخواتین افغان صحافیوں کو لانگ ٹرم اور ورکنگ ویزے جاری کریں۔
بشکریہ جنگ نیوز اردو