All posts by ghulam mustafa

عمران خان کو کھانے میں زہر دینے کا خدشہ، بشریٰ بی بی عدالت پہنچ گئیں



پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے جیل میں شوہر کی سیکیورٹی اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں معروف وکیل لطیف کھوسہ کے ذریعے دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ عمران خان کو جیل میں کھانے میں زہر دیا جا سکتا ہے۔

بشریٰ بی بی نے ہائیکورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں وزارت داخلہ، وزارت دفاع، وزارت قانون اور دیگر کو فریق بنایا ہے۔

درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ عمران خان جیل میں جن سہولیات کے حقدار ہیں وہ انہیں نہیں مل رہی، سابق وزیراعظم کے ساتھ جیل میں غیر انسانی سلوک آئین کے آرٹیکل 9 اور 14 کی خلاف ورزی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ عمران خان کو گھر کے کھانے کی اجازت نہیں دی گئی۔

بشریٰ بی بی نے استدعا کی ہے کہ عمران خان کی جیل میں سیکیورٹی اور تحفظ کو یقینی بنایا جائے، اس کے علاوہ یہ بھی استدعا کی گئی ہے کہ ذمہ دار میڈیکل آفیسر کے ذریعے انہیں خالص خوراک کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔

پاکستان کی ہونہار بیٹی نائلہ کیانی کا ایک اور اعزاز



پاکستان کی خاتون کوہ پیما نائلہ کیانی ایک اور اعزاز اپنے نام کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔

نائلہ کیانی نے چین میں ماؤنٹ چو ایو کو سر کر لیا ہے اور وہ یہ کامیابی حاصل کرنے والی پاکستان کی پہلی خاتون بن گئی ہیں۔

نائلہ کیانی نے آج 8 ہزار 188 میٹر بلند ماؤنٹ چو ایو کو سر کیا، اس چوٹی کا شار دنیا کی چھٹی بلند ترین چوٹی میں ہوتا ہے۔

نائلہ کیانی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ 8 ہزار میٹر بلند 10 چوٹیاں سر کرنے والی پہلی پاکستان خاتون کوہ پیما بن گئی ہیں۔ نائلہ کیانی اور سربازخان آج چو ایو سر کرنے والی ٹیم میں شامل تھے۔

واضح رہے کہ نائلہ کیانی کا تعلق راولپنڈی کی تحصیل گوجر خان سے ہے۔

قائمہ کمیٹی سینیٹ: حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر کے درمیان معاملات معاہدہ کراچی کے مطابق حل نہ ہونے کا انکشاف



سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور کشمیر و گلگت کے اجلاس میں میں انکشاف ہوا ہے کہ حکومت پاکستان اور آزادکشمیر کے درمیان معاملات معاہدہ کراچی کے مطابق حل نہیں ہو رہے۔

پروفیسر ساجد میر کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور کشمیر وگلگت بلتستان کے اجلاس میں سیکریٹری وزارت امور کشمیر نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان اور جموں کشمیر کے درمیان مالی معاملات معائدہ کراچی کے مطابق نہیں ہو رہے۔

سیکریٹری امور کشمیر کے مطابق دونوں حکومتوں کے درمیان معاملات میں وزارت کو اعتماد نہیں نہیں لیا جاتا۔

انہوں نے کہاکہ جب کشمیر اور گلگت بلتستان کا حصہ بنیں گے تو انہیں صوبائی خود مختاری دی جائے گی۔ 77.5 ارب روپے آذاد کشمیر حکومت نے جمع کر رکھے ہیں اس رقم کا ان سے حساب لیا جائے گا۔

اس موقع پر سلیم مانڈووی والا نے کہاکہ مقامی محصولات ان کے پاس ہی ہوں گے۔ اٹھارویں ترمیم آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر اثر انداز نہیں ہوتی۔

اجلاس میں اراکین کمیٹی نے کہاکہ پاکستان اور جموں و کشمیر کا رشتہ معائدہ کراچی کی بنیاد پرہے، ہماری ذمہ داری ہے ہم کشمیر و گلگت بلتستان کی قیادت کے ساتھ مل کر مسائل حل کریں۔

آزادکشمیر میں بجلی کے زیادہ بلوں کے خلاف ہونے والے احتجاج کا معاملہ بھی کمیٹی میں پہنچ گیا۔ کمیٹی کے ممبر سینیٹر شہادت اعوان نے کہا کہ کل بھی آزادکشمیر میں ایف آئی آرز کاٹی گئی ہیں۔ لوگوں نے دھرنے دے رکھے ہیں۔

چیئرمین کمیٹی ساجد نے کہا کہ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان حکومت کے ساتھ وزارت کے روابط مزید بہتر ہونے چاہئیں۔

سیکریٹری وزارت امور کشمیر نے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے منصوبوں کے حوالے سے تفصیلات سامنے رکھیں اور کہا کہ آزاد کشمیر و جی بی میں ترقیاتی منصوبے ریویو کئے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان حکومت نے لکھا ہے کہ ہمیں سیکشن آفیسر بھی جواب نہیں دیتا، بجلی کے منصوبوں کے لئے جی بی اور کشمیر کو جنریٹرز چاہیئیں۔

سیکریٹری امور کشمیر کی معروضات پر کمیٹی نے معاملے کو دیکھتے ہوئے ایک ہفتے میں وزارت کو رپورٹ جمع کرنے کی ہدایت کر دی۔

سینیٹر سلیم مانڈووی والا نے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں ایک ایک میٹنگ کرنے کی تجویز دی جس پر چیئرمین نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ نے کہا ہے کہ سینیٹ کمیٹی پاکستان کی حدود سے باہر نہیں جا سکتی۔

اجلاس میں کمیٹی کو بتایا گیا کہ سیرینا ہوٹل کے باہر کشمیر کی خصوصی حیثیت میں تبدیلی کی نشاندہی کرنے والی گھڑی ہٹا دی گئی ہے۔

کمیٹی اراکین نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو مناسب فورم پر نہ اٹھانے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔

اس موقع پر چیئرمین کمیٹی کا کہنا تھا کہ وزارت خارجہ مسئلہ کشمیر کو مناسب فورمز پر نہیں اٹھا رہی، سیرینا ہوٹل کے باہر لگی گھڑی بے بسی کا اظہار تھا۔

شیخ رشید کو عدالت میں پیش کرنے کے لیے راولپنڈی پولیس کو ایک ہفتے کی مہلت



لاہور ہائیکورٹ کے راولپنڈی بینچ نے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کو ایک ہفتے میں پیش کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ کے جج جسٹس صداقت علی نے سابق وزیر داخلہ شیخ رشید کی حراست کے خلاف درخواست پر سماعت کی، اس موقع پر آر پی او راولپنڈی سید خرم علی عدالت میں پیش ہوئے۔

دوران سماعت عدالت نے آر پی او سے استفسار کیا کہ شیخ رشید اور ان کے ساتھ پکڑے گئے دیگر 2 لوگ کہاں ہیں؟۔ لکھ کر ہمیں دیں گے یا شیخ رشید کو پیش کیا جائے گا؟۔

عدالت کے استفسار پر آر پی او نے مزید 15 روز کا وقت مانگ لیا۔

آر پی او کی مہلت کی استدعا پر عدالت نے کہا کہ 15 دن تو بہت زیادہ ہیں کیوں کہ یہ عام معاملہ نہیں، اس میں تو 2 دن کی مہلت بھی بہت زیادہ ہو گی۔

جسٹس صداقت علی نے شیخ رشید کو پیش کرنے کے لیے 7 روز کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ سربراہ عوامی مسلم لیگ کو ایک ہفتے کے اندر پیش کیا جائے ورنہ ایف آئی آر کا حکم دیں گے۔

90 روز میں عام انتخابات نہ کرانے کا اقدام لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج



ملک بھر میں 90 روز کے اندر عام انتخابات نہ کرانے کے اقدام کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔

لاہور ہائیکورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں صدر مملکت، الیکشن کمیشن آف پاکستان اور وفاقی حکومت سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست گزار نے عدالت میں موقف اختیار کیا ہے کہ آئین کے مطابق ضروری ہے کہ 90 روز میں انتخابات کا انعقاد ہو لیکن الیکشن کمیشن کی جانب سے تاحال ایسا کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔

اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد 3 ماہ میں الیکشن کرانے کے لیے اب وقت بہت کم رہ گیا ہے۔

درخواست گزار کی جانب سے استدعا کی گئی ہے کہ عدالت 90 روز میں انتخابات کرانے کے احکامات جاری کرے۔ یہ بھی استدعا کی گئی ہے کہ صدر پاکستان کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا حکم دیا جائے۔

90 روز میں انتخابات کرانے کے لیے درخواست جوڈیشل ایکٹوازم پینل کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ: سائفر کیس کی اِن کیمرا سماعت کی استدعا پر فیصلہ محفوظ



اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی سائفر کیس میں اِن کیمرا سماعت کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے عمران خان کی درخواست ضمانت کی ان کیمرا سماعت کے لیے ایف آئی اے کی درخواست پر سماعت کی۔

اس موقع پر ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور اور عمران خان کے وکیل بیرسٹرسلمان صفدر عدالت میں پیش ہوئے۔

سپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور نے کہاکہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل کو پبلک نہیں کیا جا سکتا، آج ہم ٹرائل کورٹ میں بھی ایک درخواست دائر کر رہے ہیں۔ انہوں نے موقف اختیار کیا کہ ضمانت کی درخواست کے دوران ہم نے کچھ اہم دستاویزات سامنے رکھنی ہیں۔ کچھ ملکوں کے بیانات بھی سامنے رکھنے ہیں، کارروائی پبلک ہونے کی صورت میں کچھ ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ جب درخواست ضمانت پر فیصلہ لکھا جائے گا تو وہ پبلک ہو گا، پھر اِن کیمرا سماعت کیوں کی جائے۔

اس موقع پر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل دیے کہ ضمانت کی درخواست پر ان کیمرا سماعت نہیں ہو سکتی، کوئی حساس بات ہو تو سماعت ان چیمبر ہو سکتی ہے۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل منور اقبال نے سائفر کے کوڈ آف کنڈکٹ سے متعلق ہائیکورٹ کو آگاہ کیا۔

وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر چیف جسٹس ہائیکورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔

ڈالر مزید سستا ہو گیا، روپیہ استحکام کی جانب گامزن



کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی اسمگلنگ کے خلاف کریک ڈائون کے بعد امریکی کرنسی کی قدر میں کمی کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔

کاروباری ہفتے کے پہلے روز انٹربینک میں ڈالر کی قدر میں ایک روپے 23 پیسے کی کمی ہوئی ہے جس کے بعد ڈالر 286 روپے 50 پیسے کا ہو گیا ہے۔

ماہ ستمبر میں کرنسی کو استحکام دینے کے لیے کی گئی کوششیں سود مند ثابت ہو رہی ہیں جو پاکستان کی معیشت کے لیے مثبت اشارہ ہے۔

ماہرہ خان اپنے بزنس مین دوست سلیم کریم کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک



پاکستان کی معروف اداکارہ ماہرہ خان نے اپنے قریبی دوست سلیم کریم سے شادی کر لی ہے۔

اداکارہ کے مینیجر انوشے طلحہ کی جانب سے ماہرہ خان کی شادی کی تقریب کی ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی جہاں وہ وائرل ہو گئی۔

ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ماہرہ خان نے سفید رنگ کا لہنگا پہنا ہوا ہے جبکہ دلہا سلیم کریم شیروانی پہنے ہوئے ہیں۔

واضح رہے کہ ماہرہ خان نے اس سے قبل ثمینہ پیرزادہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے سلیم کریم کے ساتھ تعلق کی تصدیق کی تھی۔

سوشل میڈیا پر شادی کی تقریب کی ویڈیو وائرل ہونے پر ماہرہ خان کے چاہنے والوں نے ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے اور دعائیں دی ہیں۔ یاد رہے کہ یہ ماہرہ خان کی دوسری شادی ہے۔

سپریم کورٹ: فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کیخلاف درخواستوں پر دلائل طلب



سپریم کورٹ آف پاکستان نے بجلی بلوں میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے خلاف درخواستوں پر مزید دلائل طلب کر لیے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے خلاف ایک ہزار 90 درخواستوں پر سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے عدالت سے مہلت مانگی تو چیف جسٹس نے مسترد کردی اور کہا کہ آدھے گھنٹے میں تیاری کر کے دلائل دیں۔

اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ اس کیس میں اٹارنی جنرل کو نوٹس نہیں میں دلائل دینا چاہوں گا تو چیف جسٹس نے دلچسپ مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ اٹارنی جنرل قابل وکیل میں ہم کیسے انہیں نااہل کہہ سکتے ہیں۔

بعدازاں سماعت میں وقفہ کر دیا گیا اور جب دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہاکہ بجلی کی قیمتوں کے حوالے سے کیسوں کا ڈھیر لگا ہے، 16 اکتوبر کو دلائل سن کر فیصلہ کریں گے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ 16 اکتوبر کو ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہونے کی سہولت نہیں دی جائے گی۔

بعد ازاں سپریم کورٹ کی جانب سے سماعت 16 اکتوبر تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔

امجد صدیقی تسی گریٹ ہو



تحریر:۔ جاوید چوہدری

مجھے دو ہفتے قبل لاہور سے کسی صاحب نے اپنی کتاب بھیجی‘ کتاب کا ٹائٹل اور نام دونوں جذباتی تھے لہٰذا میں نے پڑھے اور دیکھے بغیر سائیڈ پر رکھ دی‘ میں نے چند دن قبل پڑھنے کے لیے کتابیں دیکھنی شروع کیں‘ یہ اچانک میرے ہاتھ لگ گئی اور میں نے نیم دلی کے ساتھ ورک گردانی شروع کر دی اور پھر میں ہرچیز بھول گیا اور کتاب پڑھتا چلا گیا۔

یہ کتاب‘ کتاب نہیں تھی‘ زندگی کا ایک ایسا درس تھا جسے ہم ننانوے فیصد فراموش کر بیٹھتے ہیں‘ میں نے دو دن میں چار سو صفحات کی کتاب ختم کر لی اور اس کے بعد مصنف کو فون کیا اور اس کی عظمت‘ ہمت اور استقلال کو کھڑے ہو کر سلام پیش کیا‘ بے شک اس شخص نے صرف کتاب نہیں لکھی تھی‘ اس نے کتاب زندگی تحریر کی اور اس کتاب زندگی کو ہر اس شخص کو پڑھنا چاہیے جو زندگی سے مایوس ہو رہا ہے یا پھر جسے زندگی کی قدر نہیں یا پھر جو زندگی کے مسائل سے جلد گھبرا جاتا ہے۔

میرا اب مصنف کے ساتھ عقیدت اور شاگردی کا رشتہ بن چکا ہے اور میرا دعویٰ ہے آپ بھی اگر یہ کتاب پڑھیں گے تو آپ بھی اسی بندھن میں بندھ جائیں گے۔یہ کتاب (درد کا سفر) پھلروان شہر کے ایک عام سے نوجوان امجد صدیقی کی داستان حیات ہے اور اسے اس ہی نے لکھا ہے، اگر وہ یورپ یا امریکا میں ہوتا تو اب تک ان پر دس بیس فلمیں بن چکی ہوتیں‘ بھارت میں بہرحال ان پر فلم بن رہی ہے تاہم یہ اب تک درجنوں بین الاقوامی ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں۔

امجد صدیقی کون ہیں اور انھوں نے ایسا کیا کارنامہ سرانجام دیا جس نے مجھ جیسے پریکٹیکل شخص کو بھی حیران کر دیا‘ امجد صدیقی کے والد کپڑے کا کاروبار بھی کرتے تھے اور اخبارات کے ڈسٹری بیوٹر اور نامہ نگار بھی تھے‘ امجد صدیقی بچپن میں لوگوں کے گھروں میں اخبارات پھینکتے رہے‘ یہ 1979 میں روزگار کے سلسلے میں سعودی عرب چلے گئے اور بڑی مشکل سے بینک میں ٹائپسٹ کی نوکری حاصل کر لی‘ پنجاب میں اس زمانے میں اگر لڑکا سعودی عرب چلا گیاہو‘اسے ملازمت مل گئی ہو تو رشتوں کی لائین لگ جاتی تھی۔

امجد صدیقی کے ساتھ بھی یہی ہوا اور ان کی والدہ نے ایک خوب صورت لڑکی سے ان کی منگنی کر دی اور یوں یہ لوگ خوش اور مطمئن ہو گئے اور ہر چیز منشا کے مطابق پرفیکٹ چلنے لگی لیکن پھر یہ زیارت اور دعا کے لیے مدینہ منورہ گئے‘ واپسی پر کار کا ایکسیڈنٹ ہوا اور ان کی زندگی کا دھارا بدل گیا‘ ایکسیڈنٹ کے بعد زخمیوں کو ہمیشہ گاڑی کاٹ کر ڈاکٹر کی نگرانی میں باہر نکالا جاتا ہے کیوں کہ زخمی عموماً ایکسیڈنٹ میں اتنے مضروب نہیں ہوتے جتنے یہ گاڑی سے نکالنے کے عمل کے دوران مخدوش ہو جاتے ہیں۔

امجد صدیقی کو مقامی لوگوں نے گاڑی سے کھینچ کر نکالا جس کی وجہ سے ان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی‘ ان کا جسم سینے سے نیچے معذور ہو گیا‘ یہ صرف بازو اور گردن ہلا سکتے تھے‘ اس سے نیچے ان کے جسم میں کوئی حرکت تھی اور نہ ہی حس‘ انھیں ٹھنڈے اور گرم کا احساس بھی نہیں ہوتا تھا اور ان کے جسم کو اگر چھری سے کاٹ دیا جاتا تو بھی انھیں پتا نہیں چلتا تھا‘ یہ ایک خوف ناک صورت حال تھی لیکن اس سے بھی زیادہ خوف ناک اور تشویش ناک صورت حال آگے تھی‘ ان کا اپنے پاخانے اور پیشاب پر کنٹرول ختم ہوگیا تھا۔

یہ مسلسل نکلتے رہتے تھے اور انھیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا تھا بہرحال قصہ مختصر امجد صدیقی نے اس صورت حال میں بھی ہمت ہارنے سے انکار کر دیا اور کام یاب اور قابل فخر زندگی گزارنے کا فیصلہ کر لیا‘ خاندان‘ عزیز رشتے دار‘ دوست احباب اور معاشرہ انھیں بھکاری بنانا چاہتا تھا مگر یہ شخص پوری زندگی اپنی معذوری اور معاشرے سے لڑتا رہا‘ انھیں خاندان اور رشتے دار چھوڑ گئے‘ ان کی منگنی ٹوٹ گئی‘ لوگ ان سے ہاتھ ملانے کے لیے بھی تیار نہیں تھے۔

پورا خاندان انھیں پاکستان لا کر کمرے تک محدود کرنا چاہتا تھا مگر اس شخص نے ہمت نہ ہاری‘ امجد صدیقی نے اپنے دونوں بازوئوں کو اتنا مضبوط بنا لیا کہ یہ ان کا نوے فیصد معذور جسم اٹھانے لگے‘ یہ ویل چیئر پر آئے اور پوری دنیا فتح کر لی‘امجد صدیقی کی آپ بیتی ’’درد کا سفر‘‘ ایک ایسے معذور مگر کام یاب اور خوش حال شخص کی کہانی ہے جس نے معاشرے کی کسی بھی رکاوٹ کو اپنا راستہ نہیں روکنے دیا‘یہ اسپتال کیسے پہنچے‘ بستر سے کیسے اٹھے‘ ویل چیئر کو اپنا سہارا کیسے بنایا‘ گاڑی چلانا کیسے سیکھی‘ ویل چیئر پر بیٹھے بیٹھے گاڑی کے ٹائر کیسے بدلے‘ اپنی ویل چیئر اکیلے سیڑھیوں سے نیچے اتارنا کیسے سیکھا‘ یہ عزیزوں اور رشتے داروں کی نفرت اور حقارت سے کیسے نکلے اور معذوری کے باوجود نوکری کیسے حاصل کی یہ ایک حیران کن داستان ہے۔

یہ ہاتھ سے پندرہ پندرہ کلو میٹر ویل چیئر چلاکر دفترپہنچتے تھے‘ کیسے؟یہ بزنس کی دنیا میں کیسے آئے‘ کروڑوں روپے کیسے کمائے‘ معذوری کے باوجود 60 ملکوں کا سفر کیسے کیا اور آخر میں شادی کیسے کی اور یہ اب کیا کیا کر رہے ہیں؟ یہ ایک ناقابل یقین داستان ہے اور ملک کے ہر شخص بالخصوص ہر معذور شخص کو ضرور پڑھنی چاہیے‘ میرا بس چلے تو میں اس کتاب کو سلیبس کا حصہ بنا دوں ۔

امجد صدیقی کو زندگی گزارنے اور آگے بڑھنے کے لیے کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا یہ بھی ناقابل بیان ہے‘ مثلاً میں چند چیزیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں‘آپ اس سے اس شخص کی اسٹرگل کا اندازہ کر لیجیے‘ صدیقی صاحب جس زمانے میں ویل چیئر پر آئے تھے اس دور میں نارمل انسان کو بھی نوکری نہیں ملتی تھی جب کہ یہ 90 فیصد مفلوج تھے لہٰذا یہ روزگار کیسے حاصل کرتے ؟

اس کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا مگر امجد صدیقی نے یہ رکاوٹ بھی عبور کر لی‘ یہ مسلسل اپنے سابق بینک کے چکر لگاتے رہے اور انھیں بالآخر قائل کر لیا آپ مجھے تین ماہ کے لیے بلامعاوضہ ملازم رکھ لیں میں نے اگر آپ کی ریکوائرمنٹس پوری کر لیں تو مجھے ملازمت دے دیجیے گا ورنہ میں چلا جائوں گا‘ بینک راضی ہو گیا اور اس کے بعد یہ شخص روزانہ ہاتھ سے 15 کلو میٹر ویل چیئر چلا کر بینک جاتا رہا‘ یہ اس سفر کے لیے رات تین بجے اٹھتے تھے‘ تیار ہوتے تھے‘ہاتھ سے ویل چیئر دھکیل کر 15 کلو میٹر کا سفر کرتے تھے اور بینک کھلنے سے ایک گھنٹہ پہلے وہاں پہنچ جاتے تھے اور اس روٹین میں ایک دن بھی تعطل نہیں آیا‘ یہ اتنی تکلیف کیوں اٹھاتے تھے؟

کیوں کہ بسوں اور ٹیکسیوں میں اس زمانے میں ویل چیئر کی گنجائش نہیں ہوتی تھی‘ صدیقی صاحب نے دفتر میں اپنی ٹائپنگ اسپیڈ عام لوگوں سے بڑھا لی تھی لہٰذا یہ بینک میں چار لوگوں کے برابر کام کرتے تھے‘ انھیں جتنا بھی کام دے دیا جاتا تھا یہ انکار نہیں کر تے تھے اور اپنا کام مکمل کر کے گھر جاتے تھے‘ بینک کی انتظامیہ ان کے اس ڈسپلن اور کارکردگی سے متاثر ہوگئی اور انھیں پہلے مہینے ہی تنخواہ دے دی‘ سعودی عرب میں اس زمانے میں معذور آدمی کو کوئی شخص کرائے پر مکان نہیں دیتا تھا‘ امجد صدیقی نے مکان حاصل کرنے کے لیے جتنی جدوجہد کی یہ بھی ایک طلسم ہوش ربا ہے۔

ویل چیئر پر پڑے لوگوں کو عمارتوں اور مکانوں میں داخل ہونے کے لیے کتنے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے امجد صدیقی نے یہ واقعات بھی تفصیل سے لکھے‘ مثلاً میونسپل کمیٹی ایک بار ان کے گھر کے سامنے کھڈا کھود کر چلی گئی‘ یہ رات دیر گئے گھر واپس آئے تو ان کے گھر کے سامنے گڑھا کھدا ہوا تھا‘ یہ اکیلے رہتے تھے لہٰذا ویل چیئر سمیت گڑھے میں گر گئے اور پوری رات ویل چیئر کو گھسیٹ کر باہر نکلنے کی سعی کرتے رہے۔

میں کتاب کا یہ پورشن پڑھتے ہوئے رو پڑا تھا‘ اس زمانے میں معذوروں کو گاڑی چلانے کی اجازت نہیں تھی‘ امجد صدیقی نے یہ اجازت بھی حاصل کی‘ گاڑی بھی خریدی اور یہ اسے چلاتے بھی رہے‘ یہ ویل چیئر کو کس طرح گاڑی کے قریب لاتے تھے پھر بازوئوں کی طاقت سے کس طرح اچھل کر ڈرائیونگ سیٹ پر گرتے تھے اور پھر ویل چیئر کو کس طرح سڑک سے اٹھا کر فولڈ کرتے تھے اور اسے کس طرح سائیڈ سیٹ پر ایڈجسٹ کرتے تھے‘ یہ پورشن بھی ناقابل یقین ہے۔

ایک بار ہائی وے پران کی گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو گیا‘ امجد صدیقی گھنٹوں ویل چیئر پر بیٹھ کر مدد کا انتظار کرتے رہے لیکن جب کوئی گاڑی نہ رکی تو پھر انھوں نے ویل چیئر پر بیٹھ کر ٹائر کیسے تبدیل کیا یہ بھی ایک دل دہلا دینے والی داستان ہے‘ ان کے ساتھ جہازوں میں کیا سلوک ہوتا تھا‘ ائیر لائینز کس طرح انکار کرتی تھیں‘ کس طرح انھیں گھسیٹ کر سیٹوں پر بٹھایا اور اٹھایا جاتا تھا‘ ساتھی مسافر کس طرح ان سے پرہیز کرتے تھے‘ ان کی ویل چیئر پیک کرتے وقت کس طرح توڑ دی جاتی تھی اور پھر یہ ائیرپورٹ سے کس طرح نکلتے تھے‘ ان کو نوکری سے کس طرح نکالا گیا اور انھوں نے کندھوں پر تولیے رکھ کر کس طرح ویل چیئر پر کاروبار شروع کیا اور یہ کس طرح ایک کام یاب بزنس مین بنے۔

یہ جہاز کے سفر کے دوران اپنا پیشاب اور پاخانہ کیسے کنٹرول کرتے تھے اور اگر سفر کے دوران ایمرجنسی ہو جاتی تھی تو ان کے ساتھ کیا سلوک ہوتا تھا اور پھر انھوں نے شادی کیسے کی اور اللہ تعالیٰ نے انھیں اولاد سے کیسے نوازا‘ یہ بھی ایک حیران کن داستان ہے اور یہ داستان بھی رونے پر مجبور کر دیتی ہے۔

امجد صدیقی واقعی پاکستان کے ہیرو ہیں‘ انھیں پاکستان کا بہادری کا سب سے بڑا ایوارڈ ملنا چاہیے اور ان کی کتاب ’’درد کا سفر‘‘ بھی ہر شخص کو پڑھنی چاہیے‘ میرا دعویٰ ہے یہ کتاب پڑھنے کے بعد آپ کو زندگی کی کوئی بھی مشکل‘ مشکل محسوس نہیں ہو گی‘ آپ کو زندگی کے تمام مسائل سے پیار ہو جائے گا اور آپ روز اپنے آپ سے کہیں گے اگر امجد صدیقی کر سکتا ہے تو میں یہ کیوں نہیں کر سکتا؟

دوسرا آپ اس اﷲ کا شکر ادا کرنے پر مجبور ہو جائیں گے جس نے آپ کو مکمل بھی بنایا اور آپ کو اپنا جسم اور اپنی ضروریات بھی خود پوری کرنے کا سلیقہ دیا‘ اﷲ آپ پر کتنا مہربان اور رحیم ہے آپ کو اس کا احساس بھی یہ کتاب پڑھ کر ہوگا اور آپ بھی میری طرح آخر میں یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے، امجد صدیقی صاحب تسی گریٹ ہو اور آپ بھی دونوں ہاتھوں سے ان کی عظمت کو سلام پیش کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز اردو

نواز شریف اِن، عمران خان آؤٹ



تحریر:۔ انصار عباسی

ن لیگ اور نواز شریف نے اُس بیانیہ کو فوراً بدل دیا جواُن کو اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے ساتھ ٹکراؤ کی طرف لے جا سکتا تھا۔ حال ہی میں میاں نواز شریف نے ایک ویڈیو خطاب میں اپنے پارٹی رہنماؤں سے بات کرتے ہوئے سابق آرمی چیف جنرل باجوہ، سابق آئی ایس آئی چیف جنرل فیض، سابق چیف جسٹسز ثاقب نثار، آصف کھوسہ اور آئندہ سال اکتوبر میں بننے والے مستقبل کے چیف جسٹس اعجاز الاحسن کو 2017میں اپنی حکومت ختم کروانے کی سازش کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اس بات کا ارادہ ظاہر کیا تھاکہ اب سب کا احتساب کیا جائے گااور قوم کسی صورت اُن کو معاف نہیں کرے گی۔

میاں صاحب کے اس بیان کے حوالے سے کہا گیا کہ یہ نواز شریف اور ن لیگ کا آئندہ انتخابات کے لئے بیانیہ ہو گا جس پر اس خطرےکا اظہار کیا گیا کہ ایسا بیانیہ نواز شریف کو فوج اور عدلیہ کے ساتھ ایک بار پھر ٹکراو کی طرف لے جائے گا۔

یہ بھی کہا گیا کہ اس بیانیہ سے نواز شریف کی واپسی کے راستے میں رکاوٹیں پیدا ہو سکتی ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ نواز شریف کے اس بیان کے بعد شہباز شریف کے ذریعے اُن کو پیغام دیا گیا کہ اس بیانیہ کو اپنانے سے گریز کریں۔ عمومی طور پر یہ خیال کیا جارہا ہے کہ نواز شریف اور ن لیگ کو آئندہ انتخابات کیلئے طاقتور حلقوں کی حمایت حاصل ہے۔ بہر حال وجہ جو بھی ہوئی ن لیگ اور نواز شریف نے اپنا بیانیہ بدل لیا جس کا باقاعدہ اعلان دو دن قبل اسحاق ڈار نے لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

ڈار صاحب نے کہا کہ میاں صاحب ،اُن سب کے احتساب کا معاملہ اپنے رب کے سپرد کر چکے ہیں،جنہوں نے اُن کے خلاف سازش کی اور اُن کی حکومت کو ختم کیا ۔ ڈار صاحب نے یہ بھی کہا نواز شریف پاکستان کے موجودہ حالات میں پوری توجہ کے ساتھ ملک و قوم کے حالات بہتر بنانے کیلئےمعاشی ایجنڈے پر فوکس کریں گے نہ کہ انتقام اور بدلے کی طرف۔میاں نواز شریف نے کسی کے کہنے پر ایسا کیا یا خود سے ہی خیال آ گیا ،دونوں صورتوں میں ن لیگ نے فوج اور عدلیہ سے ٹکراو کی پالیسی نہ اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ نواز شریف کے ویڈیو بیان کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں اُن کی 21 اکتوبر کو واپسی کے پروگرام سے متعلق شکوک و شبہات پیدا ہو گئے تھے۔

لیکن اب لگ ایسا رہا ہے کہ میاں صاحب پروگرام کے مطابق پاکستان واپس آ جائیں گے اور ن لیگ کو آئندہ انتخابات کیلئے الیکشن مہم میں لیڈ کریں گے۔ یعنی میاں صاحب جن کو ماضی میں سیاست سے آئوٹ کر دیا گیا تھا وہ سیاست میں دوبارہ اِن ہونے جا رہے ہیں۔ ایسے میں جب میاں صاحب سیاست میں اِن ہو رہے ہیں عمران خان سیاست سے آئوٹ ہو رہے ہیں۔ توشہ خانہ کیس میں عمران خان پہلے ہی الیکشن لڑنے کیلئے نااہل ہو چکے ہیں،جب کہ سائفر کیس میں پیش کئے گئے چالان میںچیئرمین تحریک انصاف کو ایف آئی اے قصور وار تصور کرتی ہے۔

سائفر کیس کے ساتھ ساتھ9 مئی کے مقدمات عمران خان اور اُن کی سیاست کیلئے سنجیدہ خطرہ ہیں لیکن ان تمام تر خطرات کے باوجود خان صاحب اور تحریک انصاف کی طرف سے اُس فوج مخالف بیانیے اور 9مئی کےواقعات کی مذمت اور اس ماضی سے دوری کیلئے کوئی کوشش نہیں ہو رہی۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ تحریک انصاف کی قیادت اداروں سے ٹکراو والی صورتحال کو ختم کرنے کیلئے اپنے ووٹرز ،سپورٹرز اور سوشل میڈیا میں فوج مخالف بیانیہ کے خلاف آواز اُٹھاتی، اُسے سختی سے رد کرتی اور ہر ایسے فرد (جو اپنے آپ کو تحریک انصاف سے جوڑتا ہے) سے لاتعلقی کا اظہار کرتی جو فوج اور اس کی قیادت کو بدنام کر رہا ہے۔

تاہم افسوس کہ نہ عمران خان ایسا کر رہے ہیں نہ ہی تحریک انصاف کی دوسری قیادت۔ ویسے تو خان صاحب اور تحریک انصاف کی بڑی خواہش ہے کہ فوج کے ساتھ اُن کے تعلقات بہتر ہوں لیکن ایسا اُس وقت تک ناممکن ہے جب تک کہ تحریک انصاف فوج مخالف بیانیہ کو رد نہیں کرتی۔ یہ بنیادی نکتہ سمجھنے میں عمران خان کو کتنا وقت لگے گا اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

بشکریہ جیونیوز اردو

ہر صورت ورلڈ کپ جیتنا ہے: حریم شاہ کا بابر اعظم سے مطالبہ



پاکستان کی معروف ٹک ٹاکر حریم شاہ نے قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ یہ ورلڈ کپ ہر حال میں جیتنا ہے۔

کپتان بابر اعظم کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ایکس پر شیئر کی گئی ایک تصویر پر حریم شاہ نے لکھا کہ کپتان صاحب! ہر صورت میں ہمیں یہ ورلڈ کپ چاہیے۔

https://twitter.com/_Hareem_Shah/status/1708110402997854564?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1708110402997854564%7Ctwgr%5E38b8b9f1fc9d29fddba2937d1783a57e411f24a8%7Ctwcon%5Es1_&ref_url=https%3A%2F%2Fwww.express.pk%2Fstory%2F2544976%2F24

حریم شاہ کی اس ٹوئٹ کے بعد ایکس پر بحث شروع ہو گئی اور کچھ صارفین نے لکھا کہ یہ تو ایک دھمکی ہے اور ہو سکتا ہے کہ اس وجہ سے قومی ٹیم اچھا کھیل پیش نہ کر سکے۔

واضح رہے کہ آئی سی سی ورلڈ کپ کا آغاز 5 اکتوبر سے بھارت میں ہونے جا رہا ہے، پاکستان اپنا پہلا میچ 6 اکتوبر کو نیدر لینڈ کے خلاف کھیلے گا۔