صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان آج بھی میرے لیڈر ہیں ،اگر وہ ایوان صدر میں نہ ہوتا تو آج میں بھی جیل میں ہوتا۔
ایک انٹرویو میں صدر مملکت نے کہا کہ کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس سے میرا کوئی تعلق نہیں ، ریفرنس وزیراعظم ہاؤس سے آیا تھا ، بعد میں سابق وزیراعظم نے بھی کہا تھا کہ وہ ریفرنس بھیجنا نہیں چاہتے تھے۔
عارف علوی نے کہا کہ اگر میں حج پر نہ گیا ہوتا اور ایوان صدر میں ہوتا تو الیکشن ایکٹ 2017 میں کی جانے والی ترمیم پر دستخط نہ کرتا کیونکہ یہ آئین کے خلاف ہے، ایکٹ میں 57/1 کو تبدیل کیا گیا مگر میں نے اُس پر دستخط نہیں کئے، الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 57 میں ترمیم آئین کے خلاف ہے، یقین نہیں کہ جنوری کے آخری ہفتے میں الیکشن ہوں گے۔
صدر مملکت کا کہنا تھا کہ پارلیمانی نظام میں امکان رہتا ہے کہ حکومت مدت پوری نہ کرپائے اور پاکستان بڑی مشکلات کے ساتھ جمہوریت کے راستے پر آیا ہے۔
انہوں نے اپنا عہدہ نہ چھوڑنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’آئین کہتا ہے نیا صدر منتخب ہونے تک موجودہ صدر اپنی ذمہ داریاں جاری رکھے گا، اگر میں عہدہ چھوڑ دوں تو یہ پاکستان کیلیے نامناسب ہے۔
عارف علوی نے کہا کہ پنجاب اور کے پی میں انتخابات کے لیے خط کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، الیکشن کمشنر کو بلایا لیکن وہ نہیں آئے، صدر مملکت نے کہا کہ مردم شماری کے معاملات پر مسائل آ رہے تھے، میں نے کہا تھا کہ 6 نومبر یا اس سے پہلے الیکشن کروائے جائیں، وزارت قانون نے مجھےکہا کہ الیکشن کی تاریخ دینے کا میرا حق نہیں، پرنسپل سیکریٹری کو ہٹا کر لکھ دیا تھا کہ میں اپنے مؤقف پر قائم ہوں۔
صدر مملکت نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات کی مذمت کی آگے جانے کا راستہ کھلنا چاہیے، ہمیشہ کہا ہے ایسا کام نہیں ہونا چاہیے جس میں توڑ پھوڑ ہو۔
عارف علوی نے کہا کہ ذاتی طور پر عمران خان کو مالیاتی امور میں ایماندار پایا، وہ ایک محب وطن پاکستانی ہیں، وہ آج بھی میرے لیڈر ہیں۔ان کے ساتھ 27 سال سے ہوں، وہ بطور دوست اور ہمدرد مجھ پر نظر رکھتے ہیں، ان کی مقبولیت میں اضافے کا کریڈٹ نگران حکومت کو جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ شفاف انداز میں بینچز بنا رہے ہیں، وہ قابل احترام شخصیت ہیں اور ضرور انصاف کریں گے۔